115

ماہ صیام/قاضی محمد عمران

اسلام کی عمارت جن پانچ ستونوں پر تشکیل پائی ان میں روزہ بھی شامل ہے۔ روزہ اسلام کا بنیادی رکن اور اہل ایمان کیلئے حصول تقویٰ کا ذریعہ ہے۔اللہ کریم نے اپنی مقدس اور لاریب کتاب میں اعلان فرمایا : ’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے جیسا کہ تم سے پہلی قوموں پر فرض کیے تاکہ تم پرہیز گار بن جاو60‘‘(القرآن)۔ چنانچہ روزے کی فرضیت کا ایک واضع مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری کا حاصل کرنا ہے مگر اس کے لیے ایمان شرط لازم ہے، یعنی اہل ایمان ہی اس ماہ مقدس میں تقویٰ کی کیفیات تک رسال60ی حاصل کرسکتے ہیں۔ تقویٰ کا مقام ایمان کے بعد سب سے بڑھ کر ہے ۔ اہل تقویٰ اللہ کے دوست ہیں۔اہل تقویٰ تمام دنیا کے افراد میں سب سے بہتر ہیں جبکہ رنگ ونسل اور لسانیات و تمدن کی بنا پر کوئی کسی دوسرے پر فضیلت نہیں رکھتا۔دن بھر تمام اشیا ے60 طعام کے ہوتے ہوے60 خالصتاً اللہ کی رضا کی خاطر اپنے آپ کو کھانے پینے اور محرمات سے روکے رکھنا یقیناًصبر آزما فعل ہے اور صرف اہل ایمان و تقویٰ ہی اس حکم خداوندی کی تکمیل محبت الٰہی کے جذبے سے کرتے ہیں۔روزہ انسانی روح کو تقویت اور قوت فراہم کرتاہے ۔اس پاکیزہ اور مبارک عمل کے جسمانی اور طبی ثمرات پر ماہرین طب اور میڈیکل سای60نسز سے وابستہ افراد نے کئ کتب تصنیف کی ہیں مگر اس کی روحانی اور قلبی آسودگی کے لیے حاصل ہونے والے فوای60د بھی لا محدود ہیں۔ایک بندہ مومن کے لیے حکم ربانی بلا علت و حجت من و عن تسلیم کرنا لازم ہے مگر یہ حقیقت بھی بعید از قیاس نہیں کہ احکامات الٰہیہ کے دنیاوی ثمرات بھی زندگی کو آسان اور خوشگوار بنا دیتے ہیں۔روزہ جہاں اہل ثروت کو غربا اور فقرا کی بھوک اور پیاس کی کیفیت کا ادراک کروا کر انہیں انفاق کی طرف مای60ل کرتا ہے وہیں یہ نای60ب خداوندی کے اخلاق کریمانہ کو مزید روشن اور منور بھی کرتا ہے۔
محبوب کبریا ﷺ کا فرمان ہے:’’جب تم میں سے کوئی شخص روزہ دار ہو تو اسے چاہی60ے کہ بیہودہ بات نہ کرے،کوئی جہالت کا کام نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس سے لڑائی جھگڑا کرے یا گالی دے تو اسے (جواباً) کہہ دینا چاہ60یے کہ میں روزہ دار ہوں، میں روزہ دار ہوں‘‘۔اس حدیث شریف کو سنن ابی داو60د میں عبداللہ بن مسلمہ،مالک،ابو زناد اور اعراج نے حضرت ابو حریرہؓ سے روایت کیا ہے۔
روزہ کا مقصد فقط بھوک پیاس برداشت کرنا نہیں۔بلکہ یہ ایسی کیفیات کے وارد ہونے کا وسیلہ ہے جو سال بھر منقطع رہنے یا کمزور پڑجانے والے عبد ومعبود کے تعلق کو بحال کرتیں ہیں۔ شیاطین کے قید کر دیے جانے کے بعد مساجد کی رونقیں بحال ہوتیں ہیں، تلاوت قرآن کی صدای60یں ہر گوشہ و قریہ سے سنائی دیتی ہیں۔ اہل اسلام میں ہمدردی ، محبت ، سخاوت او رباہم تعاون کے جذبات عروج پر نظر آتے ہیں۔یہ تمام اللہ کریم کی رحمتوں کے اشارے ہیں۔یہ ایک ماہ ہمیں بحیثیت مسلمان ان تعلیمات اورا حکامات کی بجاآوری کی عملی مشق کرواتا ہے جو ہم پر لازم ہیں مگر اس ماہ کے گزرتے ہی ہم آہستہ آہستہ اپنے قلب کو دنیاوی رونقوں میں مصروف کرکے اپنا مقصد حیات فراموش کردیتے ہیں۔ ہر سال کے گیارہ ماہ بعد ہمیں پھر اللہ کریم کی بارگاہ کی طرف لوٹنے کی سبیل مہیا کی جاتی ہے تاکہ اس ماہ مقدس میں اپنے اعمال کی درستگی کے ساتھ نیکی اور ہدایت کے رستے پر استقامت اختیار کرلیں اور ماہ صیام ہو یا سال کا کوئی دوسرا دن ہم اپنے رب کے عبادت گزار اور محبوب بندے نظر آی60ں۔اس ماہ میں کی جانے والی عبادات کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور نوافل کا ثواب فرال60ض کے برابر اللہ کریم کی خصوصی رحمت کی علامات میں سے ہے۔اسی مہینے میں اہل اسلام کو ایک ایسی مبارک رات عطا کی گئ جو ہزار ماہ پر درجہ فضیلت رکھتی ہے اسے لیلۃالقدر کا نام دیا گیا ہے۔ اس ایک رات میں کی جانیوالی عبادت ، با عتبار ثواب ،ہزار برس کی عبادت کے مساوی ہے۔اسی رات کوکای60نات کی سب سے افضل اور معتبر کتاب قرآن حکیم عطا ہوا۔مگر خدا کے عاشقوں اور فقیروں کے ہاں حساب وکتاب کو اہمیت نہیں دی جاتی ، یہ زاہدوں ا ور عابدوں کا درجہ ہے، اہل طریقت کے نزدیک اگر بندہ مو من قدر دان بن جاے60 تو ہر رات ہی اس کے لیے لیلۃ القدر ہے، اسلیے کہ رب کے ہاں کمی نہیں ، وہ جس رات کی عبادت کا چاہے ثواب لیلۃ القدر کے برابر کردے ۔ حقیقتاً خدا کے محبوبوں کی ہر رات لیلۃ القدر ہی ہوتی ہے کیوں کہ محبوب کی قدر وہی جانتے ہیں جو آتش عشق میں جل کر راکھ ہوے60۔آنیوالا ماہ صیام اہل اسلام کے لیے اللہ کریم کی جانب سے رحمتوں اور بخششوں کی نوید ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس ماہ کی قدر کرتے ہوے60 جس قد ر ہوسکے تعلیمات قرا64نیہ کو اپنای60ں۔ اپنی دعاو60ں اور التجاو60ں میں امت کی خوشحالی اور ترقی کی درخواست اللہ کریم کی بارگاہ میں پیش کریں۔ اپنے کردار، اخلاق اور عمل کو حسن سیرت سے مزین وآراستہ کریں۔دوسروں کے لیے خوشیاں بانٹنے کا ذریعہ بنیں اور یوں اپنی عاقبت کا کچھ سامان تیا ر کرلیں، ورنہ اللہ کی رحمت سمیٹنے اور اسے راضی کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ سے نکل جاے60 گا۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں