133

قومی ترانے کی تنزل پذیری/شہزاد حسین بھٹی

وطن عزیز کا قومی ترانہ ماضی اور حال کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لئے مشعل راہ بھی ہے۔ اس کی روح نصیحت ہے’ تو مرکز پاکستان کی آزادی پر یقین اس کے الفاظ قوم کی شناخت اور پہچان کی دعا ہیں۔قومی ترانہ کسی بھی قوم کے جذبات ابھارنے اور انہیں حب الوطنی کے جذبات سے سرشار کرنے کا نام ہے۔اس کے الفاظ کوئی عام الفاظ نہیں بلکہ اپنے اندر جادو، اثراور تاثیر رکھتے ہیں۔ہر ملک کا الگ قومی ترانہ ہے۔اس کی حیثیت گویا ایک الگ تشخص کی سی ہے جس سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہوتا۔اس کے تقدس کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جب بھی قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ گایا جاتاہے۔چھوٹا بڑا، ادنی و اعلیٰ سب بصداحترام ہاتھ کھول کر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ خصوصیت سوائے مخصوص مذہبی مناجات کے اور کسی کلمات میں نہیں۔یہاں پر قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ صرف قومی ترانہ کی ہی اہمیت نہیں، اس کے ساتھ ساتھ بجنے والی دْھن بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قومی ترانہ لفظوں کے ساتھ نہیں، صرف دھنوں کے ساتھ بجتا ہے اور اسے بھی وہی احترام حاصل ہوتا ہے جو کہ شاعری کے ساتھ قومی ترانہ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ دھن اور قومی ترانہ دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔دراصل قومی ترانے کے ذریعے قوموں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔پاکستانی کی قومی زبان اردو میں اسے قومی ترانہ کہا جاتا ہے۔دیگر ممالک کی مختلف زبانوں میں اسے مختلف ناموں سے پکارا اور لکھا جاتا ہے۔دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کا ایک علیحدہ قومی ترانہ اور اس کی میوزک کمپوزیشن ہے اور ہر اہم مواقع جب قومی جذبات کی ترجمانی مقصود ہو، قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔بعض ممالک کی طرح پاکستان کا قومی ترانہ ہر روز اسکول میں جب طالب علم اپنے اسکول کے دن کا آغاز کرتے ہیں تو قومی ترانے سے ہی کرتے ہیں۔ 14 اگست1947 ء سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ وجود میں نہیں آیا تھا۔جب 14 اگست 1947 ء کے موقع پر پاکستان کی آزادی کا دن ،پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ منایا گیا، اس وقت قومی ترانے کی جگہ ’’پاکستان زندہ باد، آزادی پائندہ باد‘‘کے نعروں سے یہ دن منایا گیا تھا لیکن اس موقع پر حساس اور محب وطن شاعر اور ادیبوں کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ پاکستان کا ایک الگ سے قومی ترانہ بھی ہونا چاہیے۔جو دلوں کو گرما دے اور الگ قومی تشخص کی دنیا بھر میں پہچان کا ذریعہ ہو۔ قومی ترانہ حفیظ جالندھری نے دسمبر1948 ء میں لکھا اور اس وقت سے یہ نافذالعمل ہے۔ حفیظ جالندھری نے قومی ترانہ لکھ کر اپنا نام ہمیشہ کے لیے پاکستان کے ساتھ جوڑ لیا۔ قومی ترانہ فاؤنڈیشن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عزیز احمد ہاشمی کے مطابق قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری قومی زندگی میں ترانے کے عملی نفاذ پر زور دیتے تھے اور اسی مقصد کے حصول کیلئے قومی ترانہ فاؤنڈیشن نے طلبہ کی شخصیت و کردار سازی کے حامل ‘‘عزم عالی شان ’’ پروگرام کا اجراء کیا ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وزیر تعلیم پنجاب ، سیکرٹری ایجوکیشن اور دیگر متعلقہ حکام کو ہدایت کرکررکھی ہے کہ وہ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں اس پروگرام پر عمل در آمد کو یقینی بنانے میں قومی ترانہ فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر کام کریں۔ بچوں میں 10 اعلیٰ خوبیاں پیدا کرکے ان کی شخصیت و کردار کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا عزم عالی شان پروگرام کا اصل مقصد اور ہماری قومی ضرورت ہے تاکہ یہ طلبہ عملی زندگی میں جا کر ان خرابیوں کا ازالہ کر سکیں جو اس وقت ہمارے قومی وجود کو خراب کر رہی ہیں۔ آج کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اکثر سرکاری و پرائیویٹ سکولوں میں قومی ترانہ دیدہ دانستہ نہیں پڑھایا جاتا اور نہ ہی کوئی وفاقی و صوبائی محکمہ تعلیم اس بات کا نوٹس لیتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جار ہا ہے۔اسلام آباد سے آمدہ اطلاعات کے مطابق الھدیٰ انٹرنیشنل سکول چین سسٹم اسلام آباد میں قومی ترانہ پڑھنے پر غیراعلانیہ پابندی عائد ہے اور قومی ترانے کے نہ پڑھنے بارے استفسار پر سکول انتظامیہ کا موقف یہ ہے کہ قومی ترانے سے نیشنلزم فروغ پاتا ہے۔ “اسلام میں مسلم اُمہ کا تصور ہے وطن پرستی یا قوم پرستی کا نہیں “۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے بچوں میں نیشلزم کو فروغ نہیں دینا تو پھر انہیں مخلص، محب وطن اورسچا پاکستانی کیسے بنانا ہے؟ انہیں اپنی تاریخ سے کیسے روشناس کروانا ہے ؟ اور اس عرض پاک کے حصول کی راہ میں جو قربانیاں دی گئیں ، جو جان مال اور عزت لُٹائی گئی وہ ہمارے آج کے بچے کیسے جان پائیں گے جب ہم انہیں قومی ترانے اور قومی پرچم سے روشناس نہیں کروائیں گے۔میں ذاتی طو ر پر جانتا ہوں کہ ہمارے کئی سرکاری و مشنری سکولوں میں اب بھی قومی ترانہ بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے تو پھرپرائیویٹ سکولوں میں اس کے پڑھنے پر ممانعت کیوں؟ کیا اس کے پیچھے کوئی سازش تو نہیں۔ محکمہ تعلیم اور حساس اداروں کو اس جانب بھی غور کرنا چاہیے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں