
کہتے ہیں کہ سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے لیکن وطن عزیز میں سیاست کو اگر مفادات کے کھیل کا نام دیں تو یہ اس پر مکمل فٹ بیٹھتا ہے وطن عزیز کی تمام چھوٹی بڑی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے نہ صرف پارٹی بلکہ بسا اوقات ملکی معاملات کو پر بھی داو لگانے سے نہیں چوکتی
ان سیاسی جماعتوں کے لیڈران ملک و قوم کا نام لے کر اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل جاتے ہیں بلکہ پارٹی منشور سے کوسوں دور نکل جاتے ہیں مفادات کے حریص ان ضمیر فروش سیاستدانوں کے اگر آپ ٹی وی پر بھاشن سنیں توآپکے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے پارٹیوں کو اپنی ذاتی جاگیر بنا کر رکھ دیا ہے اور پارٹی معاملات ایسے لیڈران کے حوالے کردیے ہیں
جن کے لیے حقیقی ورکز کی حیثیت ایک ٹشو کی سی ہے وہ جب چاہتے ہیں مفاد پرست عناصر کو مال کے زور پرسامنے لے آتے ہیں راولپنڈی میں مسلم لیگ ن کے رہنماوں نے بھی بہت سے حقیقی ورکرز کی سیاست کا خون کرکے رکھ دیا ہے ان میں ایک نام ہے مسلم لیگ کے رہنماء اور2018میں جب ن لیگ کا نام لینا بھی گناہ تھا
تو پارٹی کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھایالیاتھا وہ ہے فیصل قیوم ملک کانام سب جانتے ہیں کہ 2018 میں مسلم لیگ ن کا نام لینا ایسا ہی تھا جیسے اس دور میں تحریک انصاف کا نام لینا لیکن اس مشکل دور میں فیصل قیوم ملک سمیت چوہدری سرفراز افضل سمیت چند ایک نام تھے
جو میدان میں ہر جبر کا سامنا کرتے ہوئے سینہ سپر ہوئے فیصل قیوم ملک نے اس وقت لیگی رہنماء قمر اسلام راجہ کا نہ صرف ہاتھ تھاما بلکہ انکے بچوں کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر انکی سیاسی تربیت ایسے کی کہ دو بچوں نے وختہ ڈال دیاجس وقت قمر اسلام راجہ کی ضمانت انکے قریبی عزیز بھی دینے سے کنی کتراتے تھے
اس وقت فیصل قیوم ملک نے نہ صرف انکی ضمانتوں کا بندوبست کیا بلکہ احتجاجی ریلیاں تک نکالی پھر وقت نے پانسہ پلٹا اور اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب ن لیگ ایک بار پھر جب انکی آنکھ کا تارا بنی اور قمر اسلام راجہ سمیت ساری لیڈر شپ سیاسی میدان سجانے کو نکلی تو فیصل قیوم ملک ایک بار پھر قمر اسلام راجہ کے ہراول دستے کی کمان سنبھال لی ریلی ہو جلسہ جلوس ہو یا پارٹی کی کوئی تقریب فیصل قیوم ملک ہر جگہ نمایاں نظر آئے وقت گزرتا گیا الیکشن کا ڈھول بجا تو حلقہ کے عوام سمیت فیصل قیوم بھی اپنی جگہ مطمن تھے
کہ گزشتہ کہی سالوں سے دی جانیوالی قربانیوں کے انعام کا وقت ہوا چاہتا ہے لیکن برا ہوا مفاداتی سیاست کاٹکٹ کے جیب میں لیے پھرنے کے دعویدار صاحب بہادر کا انتظار کرتے کرتے فیصل قیوم کی سیاست اور قربانیوں کو مزید قربان کردیا گیا اور قرعہ ایسے شخص کے نام نکلا
جس کا اس سے قبل ن لیگ کے بجائے چوہدری نثار کی سیاست سے تعلق تھا فیصل قیوم نے احتجاج ضرور کیالیکن پارٹی کو نہ چھوڑایہاں گوجرخان کے حلقہ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوگاجہاں جاوید اخلاص نے شوکت بھٹی کو ٹکٹ نہ دینے پر الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا جہاں اسامہ سرور جیسا بندہ اپنی مرضی کے ٹکٹ بانٹ رہا تھا
وہاں راولپنڈی کے چھ حلقوں کے ٹکٹ جیب میں رکھنے کا دعوید قمر اسلام راجہ کیوں خاموش رہا اسے وہ مشکل وقت کا فیصل قیوم کیوں یاد نہ رہا جس نے مشکل ترین وقت میں ن لیگ کو سہارا دیا اسے فیصل قیوم کے وہ کندھے کیں یاد نہ رہے جن پر سوار اسکے بچے مہم چلاتے رہے
مشکل وقت قمراسلام راجہ نے فیصل قیوم کو انکی محبتوں محنت کا صلہ دینے کے بجائے چپ کا روضہ رکھ لیا تھاسوشل میڈیا ہر انکے بھاشن سنیں آرٹیکل پڑھیں تو چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں
لیکن عمل نداردبلکہ اس سے کوسوں دور دوسری طرف انکی پراسرارخاموشی نے حلقہ میں قبضہ مافیاء کو وہ قوت بخشی ہے کہ اللہ کی امان حلقہ کے عوام کی بدبختی اور بدقسمتی کی بات کوتو چھوڑ دیں لیکن جہاں فیصل قیوم جیسے پارٹی ورکرز کی کوئی قدر نہ ہو وہاں اس عوام کی کیا قدر قیمت ہوگی
جنہوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ایسے لیڈران کو ووٹوں سے منتخب کیا ہو جو43ہزار کی ووٹوں سے ہارنے کے باوجود بھی زاتی مفاد کے گھوڑے پر سوار ہوجائیں تو انکے سامنے فیصل قیوم اور سرفراز افضل جیسے لیڈران کو ٹکٹ دینے کے بجائے کروڑوں کی ڈیل معنی رکھتی ہے وہاں عوام کے مسائل کیا
خاک حل ہونگے زاتی مفاد والے جب تک پارٹی کیساتھ جھونک کی طرح چمٹے ہونگے اس وقت تک کئی فیصل قیوم قربان ہوتے رہیں گے اللہ میرے ملک کو ایسی قیادت نصیب کرے جو انکے حقیقی مسائل کا ادراک کر سکے اور راولپنڈی کو اس قبضہ مافیاء کے ناسور اور اسکے حواریوں اور سرپرستوں سے نجات دلوائے یا نیست نابود کرے