145

غریب عوام لمبی قطاروں میں پھنس کر رہ گے

تحریر چوھدری محمد اشفاق
ہمارے ملکی پاکستان کے ھالات دن بدن کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں حکومت اپنی جہگہ مختلف بحرانوں کے نرغے میں پھنس چکی ہے عوام اپنی رونا رہے ہیں صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہر وقت دل میں یہ خوف رہتا ہے کہ کوئی پتہ نہیں کب کیا ہو جائے حکومت اور عوام کے درمیان بد اعتمادی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے عوام کسی معجزے کے منتظر ہیں جس کے ہونے کی وجہ سے شاید ان کو کوئی ریلیف مل سکے جبکہ حکومت عوام کیلیئے آئے روز قطاروں میں کھڑا رکھنے کے نت نئے پلان بنا رہی ہے عوام ایک دن چینی و گھی خریدنے کیلیئے یوٹیلیٹی سٹورز کے باہرسردی اور بارش میں کھڑے رہتے ہوئے پورا دن گزار دیتے ہیں اور دوسرے دن آٹے کے حصول کیلیئے پورا دن قطاروں میں لگے گزر جاتا ہے جوان اور بوڑھی عورتوں سارا سارا دن اپنے شیر خوار بچوں کو گود میں اٹھائے قطاروں میں کھڑی دکھائی دیتی ہیں اسی دوران ان کو کافی مسائل کا سامان بھی کرنا پڑتا ہے اس ی دوران گھنٹوں لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے الجھ بھی جاتے ہیں لڑائی جھگڑے بھی ہو رہے ہیں اتنی زیادہ بھاری محنت کے بعد جب باری ااتی ہے تو سٹور انتظامیہ اور آٹا فروخت کرنے والی انتظامیہ کی بھی کئی باتیں ان کو سننی پڑتی ہیں ایک دیہاڑی دار جب دو دن قطاروں میں کھڑے گزار دے گا تو وہ اپنے پورے ہفتے کے شیڈول سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اب وہ جو دن ضائع کر چکا ہے ان کو کور کیسے کر پائے گا پھر اس مجبورا کسی سے ادھار مانگنا پڑتا ہے نوجوان لڑکیوں بزرگ خواتین اور معصوم بچوں کو قطار میں دیکھ کر دل بہت زیادہ پریشان ہوتا ہے عوام جن کو اپنا لیڈر اپنا قائد سمجھ کر اپنی دکھوں کے مداوے کیلیئے منتخب کرتے ہیں وہی ان سے انتقام پر اتر آتے ہیں اور اس وقت عوام سے لمبی قطاروں کی صورت میں بہت بڑا انتقام لیا جا رہا ہے قطاریں ہمارے لیئے ایک عذاب بنتی جا رہی ہیں مہنگائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے زخموں پر مرحم رکھنے کے بجائے الٹا ان پر نمک چھڑکا جا رہا ہے عوام ہر روز مر اور جی رہے ہیں کلو چیز خریدنے والا شخص ایک پاؤ خریدنے پر مجبور ہو چکا ہے سفید پوش طبقہ کے مرد و خواتین بھی قطاروں میں منہ چھپائے کھڑے دیکھے جا رہے ہیں جب اتنی مشکل منزل طے کرنے کے بعد گھر پہنچ کر ٹی وی وغیرہ سنا جائے تو صرف چند خبریں ہی سننے کو ملتی ہیں فلان کی ضمانت ہو گئی فلاں کی کینسل ہو گئی کسی کی کنفرم ہو گئی ہے کسی کو نیب نے پکڑ لیا ہے کسی کی ویڈیو اور کسی کی آڈیو لیک ہو گئی ہے یہ سب کچھ سن کر دل مزید پریشان ہو جاتا ہے ملک اس وقت شرم ناک صوررتحال سے دوچار ہو چکا ہے سیاستدان ایک دوسرے کی عزتیں اچھال رہے ہیں گالی دینا رواج بن چکا ہے ایک دوسرے کو تھپڑ مارنا باعث فخر بنا چکا ہے ہمارے سیاستدانوں نے ملک کو مچھلی منڈی بنا دیا ہے کبھی ایک کا اور کبھی دوسرے کا گریبان پکڑا جا رہا ہے دنیا ہمارے تماشے دیکھ رہی ہے ہم تباہی و بربادی کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں ہر طرف لاقانونیت کا بول بالا ہے عوام سیاستدانوں کو گالی دے رہے ہیں سیاستدان ایک دوسرے کو گالی دے رہے ہیں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ایسی صورتحال میں ہمارے ملک ہماری عوام کا کیا بنے گا حکومت کا کسی بھی ادارے کسی بھی شعبہ پر کوئی کنٹرول نہیں رہا ہے سسٹم کی خرابی کی وجہ سے حکومت کا بڑے تاجروں اور منڈیوں پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے تاجر جرمانوں اور ایف آئی آر ز کی زد میں آرہے ہیں کھاد ڈیلر اپنی مرض کر رہے ہیں ٹرانسپورٹرز اپنے قانون بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اپنی مرضی سے کرائے وصول کر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جب حکومت اور سرکاری ادارے خوش بد انتطامی کا شکار ہیں تو وہ کیا خاک قانون پر عملدرامد کروائیں گے خدارا حکومت کو اپنے مسائل سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا غریب عوام مر رہی ہے قطاروں کی تعداد مزید بڑھتی جا رہی ہے اپنے ملک کے عوام کو قطاروں سے نجات دلائیں وہ ہر چیز کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں مہنگی اشیاء بھی خرید رہے ہیں لیکن کم از کم ان کو قطاروں کے عذاب سے تو نجات ملنی چاہیئے عوام نے کونسا جرم کیا ہے جس کے بدلے میں ان کو اتنی بڑی سزا دی جا رہی ہے حکومت کو اپنے بحرانوں سے نکل کر عوام کیلیئے بھی کچھ سوچنا چاہیئے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں