جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

عبدالخطیب چوہدری‘مرد آہن

زندگی کے حالات وواقعات کا قریب سے اور گہری نظر کے ساتھ مشاہدہ کرنے کا مسلسل موقع ہر شخص کو ملتا رہتا ہے جو آنے والے وقت میں منزل کے تعین اور شعوری سفر کے لیے مہمیز کا کام دیتا ہے ان تجربات و مشاہدات سے کوئی منزل پالیتا ہے اور کسی کے دامن میں تلخیاں اور ناکامیاں بسیرا کرلیتی ہیں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنی استقامت صبر اور حوصلے سے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور پھر اپنی جدوجہد سچائی اور کاز کے ساتھ اپنی پر خلوص وابستگی کے باعث نہ صرف اپنی منزل پالیتے ہیں

بلکہ اپنے ساتھ محو سفر اپنے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں۔یہ ہرکسی کا خاصہ نہیں ہوتا کیونکہ خوشگوار اور ساز گار ماحول میں اپنی شناخت بنانا اور اپنی ذات کا احساس دلانا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جب ماحول دوست ہو اور نہ ہی کسی رشتے کے نام پرکسی کا سایہ میسر ہو تو ایسے میں مخالف سمیت محو سفر رہنا کس قدر دشوار ترین ہو جاتا ہے اس کا اندازہ عام لوگ نہیں کرسکتے۔ پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر جناب عبدالخطیب چوہدری صاحب بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے انتہائی غیردوست ماحول میں ایسے سفر کا ارادہ باندھا جس میں قدم قدم پر رکاوٹیں۔خطرات اور مشکلات پہاڑ کی صورت کھڑے نظر آتے تھے۔دور موجودہ میں صحافت اور میڈیائی پلیٹ فارم محض کاسہ لیسی۔جی حضوری اور خوشآمد کا نام ہیں ایسے ماحول میں عبدالخطیب چوہدری صاحب اگر سچائی کی شمع اٹھا کر میدان عمل میں نکلے اور اس شمع کو تیز ہواؤں آندھی طوبان اور باد و باراں سے بچا کر منزل تک۔پہنچے ہیں تو یقیناً وہ مرد آہن کہلانے لائق ہیں۔ عبدالخطیب چوہدری صاحب اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ ان کے ساتھ چلنے والے افراد بھی منزل کا تعین کرتے ہوئے ان کے ساتھ اپنے مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ پنڈی پوسٹ سے میری وابستگی حادثاتی طور ہوئی۔ چونکہ محنت مزدوری کے لیے میں زیادہ عرصہ اندورن سندھ گذارتا ہوں اور دس پندرہ روز کے لیے ہی اپنے گاؤں جاتا ہوں تو کوئی واقعہ یا حادثہ ایسا ہوتا ہے جس پر میں قلم اٹھاتا ہوں۔پنڈی پوسٹ سے وابستگی بھی السحر نیوز کے پیج پر گوجر خان میں ہوئے ایک قتل پر میری ایک تحریر بنی۔

میرا بیٹا پنڈی پوسٹ سے وابسطہ تھا میری تحریر عبدالخطیب صاحب کی نظر سے گزری جسے پڑھ کر عبدالخطیب چوہدری صاحب نے اتفاقاً میرے بیٹے سے اس تحریر کے لکھاری بارے پوچھ لیا پھر انہوں نے مجھے علاقائی مسائل واقعات پر پنڈی پوسٹ میں لکھنے کی دعوت دی۔جسے میں بخوشی قبول کیا اور اس وقت سے میں پنڈی پوسٹ سے منسلک ہوں اور آج تک ایسا نہیں ہوا کہ عبدالخطیب چوہدری صاحب یا ہمارے مہربان شہزاد صاحب نے میری کسی تحریر سے اختلاف کیا ہو پسند وناپسند کی بنیاد پر میری کسی تحریر کو شامل اشاعت ہونے سے روکا ہو یا اس تحریر کے الفاظ حذف کیے ہوں یہی صحافت کے اصول ہیں جن پر پنڈی پوسٹ سختی سے عمل پیرا ہے۔ورنہ یہاں تو پسند و ناپسند اور یاری دوستی نبھانے کے لیے صحافت کے اصول پامال کر دئے جاتے ہیں۔ وابستگی کے بعد میں نے پنڈی پوسٹ کے لیے باقائدہ لکھنا شروع کیا اور ساتھ ہی پنڈی پوسٹ کے اغراض ومقاصد کا بغور جائزہ بھی لیا تو عبدالخطیب چوہدری کو اپنی سوچ کے بہت زیادہ قریب پایا کہ صحافت کو غیرجانبدار ہونا چاہیے لکھنے والے ہر لکھاری کو اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کی آزادی ہو۔پنڈی پوسٹ کا یہی نظریہ رہا۔مجھے پنڈی پوسٹ سے اپنی وابستگی پر اس لیے بھی فخر ہے کہ پنڈی پوسٹ میرے علاقہ بیول کے مسائل مشکلات اور تیزی سے پنپتی سماجی برائیوں کے حوالے سے میری تحریروں کو اپنے صفحات پر جگہ دیتی ہے جس کی وجہ سے میں اپنے علاقے سے دور رہ کر بھی اس کی بہتری کے لے لیے اپنی تحریروں کی صورت اپنا حصہ ڈالتا ہوں۔میری کوشش رہی ہے کہ میں ہر اس برائی کی نشاندھی کروں جس سے میرے نوجوان اور میرا سماج متاثر ہورہا ہے میں جہاں بھی رہوں میں اپنے اردگرد ہونے والے غیرقانونی‘غیراخلاقی کاموں کی نشاندھی کرتا ہوں۔چونکہ معاشرتی بگاڑ کے پیچھے سیاست پشت پناہی ایک مسلمہ حقیقت ہے اس لیے بہتری کی امید تو نہیں کی جاسکتی البتہ مجھے حکم آذاں ہے کے تحت میں اپنا فرض پورا کرتا ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں