90

عبدالخطیب چوہدری،چیف ایڈیٹر پنڈی پوسٹ راولپنڈی

تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!انسان اپنی شخصیت اور فلاح و بہبود کے کاموں کی بدولت نہ صرف توجہ کا مرکز بنتا ہے بلکہ اللہ کے ہاں مقبولیت کا رتبہ بھی حاصل کر پاتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ موصوف کا انتخاب کالم کے لیے کیوں کیا؟یہ بات تو بہت اہمیت کی حامل ہے۔بقول شاعر:-
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسرں کے


فیس بک پر ایک پوسٹ پر نگاہ پڑی تو بڑے غور سے پڑھا”
چیف ایڈیٹر پنڈی پوسٹ عبدالخطب چوہدری پرنسپل گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول ندیم خالق کو فروغ تعلیم کے حوالہ سےبیس ہزار روپےپیش کررہے ہیں“
اس قدر تعلیم سے محبت اور دلچسپی ۔۔دل میں ایک امنگ اور ترنگ پیدا ہوٸی کہ کم از کم پذیرائی کے لیے چند الفاظ ہی پیش کردوں۔بات تو بہت خوبصورت ہے۔بقول شاعر:-
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا


مجھے ایک ادا اچھی لگی جس کی وجہ سے لکھنا شروع کر دیا۔موصوف نے دفتر میں ایک ادارہ کے سربراہ کو محبت اور پیار کی فضا میں چیک عطا فرمایا۔ سرکاری ادارہ جہاں زیادہ تر متوسط طبقہ کے بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ان کے حوالے رقم کی جو ان کی بساط کے مطابق ایک بہت بڑی کاوش ہے۔ موصوف کے جذبہ اور حسنِ خیال پر بھی داد۔کوئی تقریب نہ کوئی خود نمائی محترم پرنسپل ندیم خالق صاحب کے حوالے رقم کر دی۔یہ ایک مثبت روایت ہے۔اس کی جس قدر پذیرائی کی جاۓ کم ہے۔بات فقط اچھے کام اور جذبہ کی ہے۔

اللہ مزید توفیق عطا فرماۓ۔اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ محترم ”عبدالخطیب چوہدری“صاحب ہفت روزہ پنڈی پوسٹ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ان کا واسطہ ہر مکتبہ فکر کے افراد سے پڑتا ہے۔ایک ایسے ادارہ کے سربراہ ہیں جو فروغ علم و ادب میں ایک اہم کردار ہے۔جو انسانیت کو شعور اور علم کی دولت سے نوازتا ہے۔

ہر قلم کار کی تحریروں کو مناسب جگہ دینا٬دوسروں کی سعی و عمل کی حوصلہ افزائی کرنا اور صحافت کے رموز و اوقاف سے آگاہی رکھنا ان کا کمال ہے۔اللہ کرے خدمت انسانیت کی تڑپ اور جذبہ جواں رہے۔قلم و قرطاس کی اہمیت بھی اجاگر کرنے میں کردار ادا کرتے رہیں۔ایک اچھا انسان ہمیشہ دوسروں کے جذبات و احساسات کا احترام کرتا ہے۔بات طویل ہو گئی۔موصوف اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتے ہوۓ تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔

یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ تعلیمی اداروں کے سربراہان کے ساتھ روابط اور دستیاب وسائل کے مطابق ان کو اداروں میں ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل فراہم کرتے ہیں۔مجھے تو بہت خوشی ہوئی کہ ایک ادارہ کے لیے اس قدر محبت۔کیوں نہ ہو بقول شاعر:-
قسمت نوعِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں(اقبال کیفی)


تعلیمی ادارے ہمارے ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کے کرادر اور کام سے ہی نہ صرف قومی تشخص برقرار رہتا ہے بلکہ مستقبل بھی روشن ہوتا ہے۔موصوف نے ایک ایسا کام کر دکھایا ہے جو ہر فرد کے لیے غور طلب ہے۔

ہم نے اس ملک کے بچوں اور بچیوں کو علم کی دولت سے مالا مال کرنا ہے۔اور اداروں کی ضروریات کا احساس بھی کرنا ہے۔یہ بہت مثبت طرز عمل ہے۔ غرباء اور مساکین کے بچوں کے لیے یونیفارم اور سٹشنری کےسامان کی فراہمی سے ان کی تعلیم جاری رہ سکتی ہے۔درد و غم میں ڈوبی انسانیت کی خدمت ایک اچھا عمل ہے۔بقول شاعر:-
چند لوگوں نے اگر محل بنا رکھے ہیں
اس کا مطلب نہیں کہ شہر میں غربت کم ہے(ساغر صدیقی)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں