225

عبدالخطیب نامہ نگار سے ایڈیٹر تک

مضمون نگار قمرالسلام راجہ

انجینئر قمرالاسلام راجہ 
سال 2008 یا 2009 کی بات ہے، پرنٹ میڈیا میں ابھی تک خبروں کی ترسیل کے روایتی طریقے رائج تھے۔ ہر تقریب کی تصاویر کے پرنٹ مخصوص طریقے سے کاٹ کر کاغذ پر چپکائے جاتے اور نیچے کیپشن لکھ کر خود اخبار دفتر پہنچائے جاتے تھے۔ اسی طرح خبر یں کاغذ پر لکھ کر یا تو بذات خود اخبار کے دفتر پہنچائی جاتی تھیں یا فیکس کا استعمال کیا جاتا تھا۔

میں نے اس دور میں اپنی سیاسی تقریبات کی خبر بھجوانے کے لیے ای میل اور فوٹو شاپ کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ انہی دنوں علاقہ روات کے ایک صحافی نے ویب نیوز المعروف انٹرنیٹ خبروں کی دنیا میں قدم رکھا اور پنڈی کا نام استعمال کرتے ہوئے علاقائی خبریں لگانی شروع کیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ متعدد وجوہات کی بنا پر مجھے شدید حیرانی ہوئی۔ میں عبدالخطیب چوہدری کو نامہ نگار نوائے وقت کے حوالے سے جانتا تھا، فون پر بھی متعدد مرتبہ بات ہوئی تھی

بلکہ پنجاب میں گورنر راج لگنے پر میرا مذمتی بیان بھی عبدالخطیب چوہدری صاحب نے ہی بذریعہ فون مجھ سے لاہور بات کرکے رپورٹ کیا تھا جو متعدد قومی اخبارات میں شائع ہوا تھا مگر چونکہ اس وقت تک باقاعدہ ملاقات کا کوئی سبب نہیں بنا تھا

اسلئے میں ان کے چہرے سے واقف نہیں تھا۔ عبدالخطیب چوہدری جیسا بھاری بھرکم اور باوقار نام، بزرگی کا تاثر دیتی بارعب آواز، نوائے وقت جیسے اخبار سے طویل وابستگی اور پھر مکتوب مانکیالہ سمیت دیگر تحریروں میں چھلکتی مہارت اور پختگی کم از کم کسی 60سالہ شخصیت کا پتہ دے رہی تھی۔

حیرت اس لیے بھی شدید تھی کہ میں بخوبی جانتا تھا کہ قلم سے کی بورڈ (key board) کی طرف مراجعت بہت کٹھن کام ہے اور میں اس عمر میں کسی کہنہ مشق صحافی سے اس کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ انہی دنوں میرے سیاسی حریف راجہ انور صاحب کی طرف سے میرے خلاف دائر کی گئی انتخابی عذرداری لاہور ہائی کورٹ سے خارج ہوئی اور عبدا لخطیب چودھری صاحب نے وہ خبر اپنی ویب سائیٹ پر لگائی اور مجھے وہ لنک بھیجا۔

میں اس وقت سے اس اخبار کا باقاعدہ قاری ہوں۔ انہی دنوں جب ان سے باقاعدہ ملاقات ہوئی تو انہیں دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ میرے سامنے ایک نوجوان کھڑا تھا۔ پھر چند برس بعد پنڈی پوسٹ ایک باقاعدہ اخبار کی شکل میں سامنے آیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قومی اخبارات میں لکھنے اور پذیرائی پانے والے ایک معروف صحافی کا قومی افق سے علاقائی پلیٹ فارم پر آنا اس خطے پر بہت بڑا احسان ہے۔

بالخصوص اس بنا پر کہ اس عرصے میں ہم نے ان سے بہت کم قدکاٹھ کی شخصیات کو میڈیا کے قومی افق پر بڑے بڑے کالم نگار، رپورٹر، تجزیہ نگار اور اینکر بنتے دیکھا ہے اور عبدالخطیب چوہدری میں وہ تمام خصوصیات بڑھ چڑھ کر موجود تھیں جو انہیں قومی افق پر نمایاں کر سکتی تھیں۔ اگر میں میدان سیاست کی مثال دوں تو ہم نے اکثر ایسے سیاستدان دیکھے ہیں جو اپنی کامیابیوں کے دنوں میں تو عوام کو بالکل گھاس نہیں ڈالتے اور ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں لیکن جب وہ الیکشن میں ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں

تو انہیں علاقہ اور اسکے باسی یاد آ جاتے ہیں اور وہ عقیقوں اور ختنوں جیسی تقریبات میں شرکت کرکے اور عوام کو جپھیاں ڈال کر اپنے عوامی ہونے کا تاثر دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض سرکاری افسران کو اپنے دور اقتدار میں اپنے ڈومیسائل سے الرجی ہوتی ہے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد مٹی کی محبت جاگ اٹھتی ہے۔ان مثالوں کے برعکس دھرتی کے اس بیٹے نے یہ تمام مواقع ہوتے ہوئے بھی علاقائی صحافت میں آنے کا شعوری فیصلہ کیا، نہ صرف علاقے کی خدمت کا بیڑہ اٹھایا

بلکہ انتہائی محنت اور لگن سے ایک زبردست ٹیم تشکیل دی۔آج سات برس بعد میں پنڈی پوسٹ کی ٹیم کے تمام سینئر اور جونیئرارکان کا جائزہ لیتا ہوں تو علمی، سماجی اور اخلاقی تینوں اعتبارسے یہ نا بغہ روزگار نظر آتے ہیں۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانبدارانہ اور غلط رپورٹنگ کی بنیاد پر یا انفرادی سیاسی نظریات کی بنا پر مقصدیت اور غیرجانبداری متاثر ہوجاتی ہے اور خبریا تجزیے میں قاری کو واضح جھکا¶ نظر آرہا ہوتا ہے

مگر پنڈی پوسٹ میں ایسے معاملات کا تناسب نہ ہونے کے برابر رہا ہے اور اگر کچھ ایسا ہو بھی گیا تو متاثرہ فریق کی طرف سے معاملہ اٹھائے جانے پر اس کا مداوا کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ خود میرے ساتھ بھی پچھلے دنوں ایسا معاملہ ہوا اور میں نے وضاحت دینا چاہی تو خود کالم نگار طارق بٹ صاحب نے بصد اصرار میری وضاحت لی اور چیف ایڈیٹر کو کہہ کر شائع کروائی۔ اس مار دھاڑ اور نفسا نفسی کے دور میں کسی اور ادارے میں ایسی روایات کم از کم میں نے نہیں دہکھیں۔

الیکٹرونک میڈیا کی آمد، روز افزوں مہنگائی، کاغذ کی آسمان سے باتیں کرتی قیمت اور بڑھتے اخراجات نے بالخصوص پچھلی دو دہائیوں میں پرنٹ میڈیا کو گوناگوں مسائل سے دوچار کر دیا ہے جس کی وجہ سے اخباری صنعت کے اشتہارات پر انحصار میں اس بری طرح اضافہ ہوا ہے کہ اشتہارات ہی اخبارات کی پالیسی کا تعین کرتے ہیں اور اشتہارات ہی کی بنیاد پر اخبارات اپنے تمام اصولوں اور نظریات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں کیونکہ آکسیجن کے بغیر زندگی کا تصور مفقود ہے مگر عبدالخطیب چوہدری اور ان کی ٹیم نے اس ضمن میں بھی انوکھے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔میں اپنی مثال سے بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اپنے مخصوص اور مشہور مالی حالات، نیز شعبہ صحافت کے بارے میں اپنے مقدس ترین نظریات کے زیر اثر گذشتہ سات برس میں کبھی بھی میں نے پنڈی پوسٹ کو کوئی اشتہار نہیں دیا حتی کہ الیکشن جیسے مشکل وقت میں بھی جب مخالف سیاسی امیدواروں کے اشتہارات سے صفحات بھرے ہوتے ہیں، میری تہی دامنی نمایاں ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر بھی سوائے کسی ایک آدھ تجزیے یا خبر کے پنڈی پوسٹ نے کبھی بھی اس اہم معاملے کو اپنی غیرجانبداری اور مقصدیت کے آڑے نہیں آنے دیا۔

اصل میں چیف ایڈیٹر اور ان کی پوری ٹیم اخباری سا کھ کی اہمیت سے نہ صرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ اس میں کلی ایمان بھی رکھتے ہیں ورنہ اس علاقے میں ایک آدھ ایسا نام بھی موجود ہے جس کی تحریر کو پڑھنے کے بعد مقامی قارئین اس کے پیچھے سے جھانکتے مفاد کی مالیت کا بھی درست اندازہ لگا لیتے ہیں۔ پنڈی پوسٹ نے ہمیشہ علاقائی اور عوامی مسائل کو اجاگر کر کے علاقے کی بہتری اور تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس ضمن میں کبھی کسی دھونس، دھمکی یا مفاد کو آڑے نہیں آنے دیا

۔میں نے طارق بٹ سے لے کر اشفاق چوہدری تک، آصف شاہ سےلےکر مسعود جیلانی اور شہزادرضا تک کو کبھی کسی فرعون وقت یا قارون زمانہ کے سامنے آنکھیں جھکاتے نہ دیکھا نہ سنا۔ ہاں کبھی کبھی کچھ جملے توازن اور اعتدال کی حدود سے باہر نکلتے دکھائی دیتے ہیں جو ایک قدرتی امر ہے کیونکہ جب ایک صحافی حالات و واقعات کی بھٹی سے گزر کر قرائن کا نچوڑ کرتا ہے تو اس عمل کی حدت کے باقی ماندہ اثرات نے کہیں نہ کہیں اپنا اظہار کرنا ہوتا ہے۔

بحثیت مجموعی پنڈی پوسٹ اپنے معیار، مقصدیت، علاقائی افادیت، اچھی شہرت اور کپتان سمیت اپنی پوری ٹیم کی پیشہ ورانہ اہلیت کی بناءپر مختصر عرصے میں ایک ایسا اخبار بن گیا ہے جو ہر لحاظ سے یہاں اور دنیا بھر میں موجود راولپنڈی بالخصوص علاقہ روات، چونترہ اور کلر کے باسیوں لیے باعث فخر ہے{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں