156

طلباء سے بجلی بل کے نام پر چندہ وصولی

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

بعض حقائق اور سچائیاں سامنے ہوتے ہوئے بھی جھوٹ ہی گردانے جاتے ہیں کیونکہ انہیں ثابت نہیں کیا جاسکتا بعض اوقات جو نظر آتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے

وہ نظر نہیں آتا جس سے سچ اور جھوٹ کو سمجھنے میں دشواری رہتی ہے۔دھند ہو یا غبار آنکھیں اصل منظر دیکھ نہیں پاتیں۔ہمارا معاشرہ ناہمواریوں کا شکار ہے

یہاں انصاف اور توازن عنقا ہیں اور بدقسمتی ہے ہم۔جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ناانصافیوں کی تند و تیز آندھیوں نے عوام کو ڑندہ درگور کر رکھا ہے ایک طرف فنون حرب و ضرب کے ماہر ہاتھوں نے کمال۔مہارت سے لوٹا تو دوسری جانب سیاسی قیادتوں نے ہمیں شکار کیا

پھر ہماری بیور کریسی اور اداروں نے ہمارا لہو چوسا۔ترقی یافتہ ممالک کی ترقی پر غور کریں تو ایک بات کامن ہے کہ ان ممالک نے اپنے ایجوکیشن سسٹم۔کو جدید خطوط پر استوار کیا اپنی عوام کو تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب کیا اور اس کے لیے وسائل فراہم کیے ہم اپنے سسٹم پر نگاہ ڈالیں

تو حکومتی سطح پر تعلیم کے حوالے سے کہیں سنجیدگی نظر نہیں آتی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم حکمرانوں کی غیرسنجیدگی کاواضع ثبوت ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہوتی ہے اس پر مزید ظلم یہ کہ اس رقم کی لوٹ مار پر چیک کا کوئی نظام۔موجود نہیں فنڈز اسکولز تک پہنچتے پہنچتے آدھے سے کم۔رہ جاتے ہیں

اور پھر اسکول چلانے والے بھی اسی کرپٹ نظام کا حصہ ہیں سو یہاں بھی ہاتھ کی صفائی سے انکار ممکن نہیں نتیجتاً تعلیم کی حالت اس قدر پتلی ہے

کہ ہمارے انٹر اور بی اے پاس نوجوان انگلش کیا درست سے اردو تک لکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔لوٹ مار کے اس ماحول جب کسی اسکول بارے شکایات سامنے آتی ہیں تو اس شکایت کو لوٹ مار کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا ہے گذشتہ دنوں بوائز ہائر سکینڈری اسکول بیول بارے یہ شکایات تواتر سے سامنے آئیں کہ اسکول انتظامیہ کی

جانب سے طالب علموں سے جنریٹر کے نام پر 30 روپے ماہانہ وصولی اور سو روپیہ فی بچہ پیپر فنڈز کے نام پر وصولی کی جارہی ہے اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر اسکول انتظامیہ نے ان شکایات کے حوالے اپنا موقف دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کے دوران بچوں کی کو گرمی کی شدت سے بچانے کے لیے انتظامیہ نے اپنے طور پر جنریٹر لگانے

کی سعی کی جس کے لیے ایک درد دل رکھنے والے فرد نے ڈھائی لاکھ کی مالی مدد ک کلر سیداں سے ایک سیکنڈ ہینڈ بڑا جنریٹر خریدا گیا جس کا سودا ساڑھے پانچ لاکھ میں ہوا۔ڈھائی لاکھ کشیں ادائیگی جبکہ باقی تین لاکھ روپے اقساط کی صورت ادا کرنا طے پایا۔تیس روپے ماہانہ جنریٹر کی قسطوں کے حوالے سے وصول کیے جارہے ہیں۔

سو روپیہ پیپر فنڈ کی وصولی بابت انتظامیہ کاماننا تھا کہ حکومت کی جانب سے اسکول کو سہہ ماہی ایک لاکھ اکیس ہزار کے فنڈز جاری کیے جاتے ہیں جو چالیس ہزار ماہانہ بنتا ہے جبکہ اسکول کا بجلی کا بل ساٹھ سے ستر ہزار روپے ماہانہ ہے جس کی ادائیگی مخیر حضرات کی تعاون سے کی جاتی ہے

جبکہ اسکول کے دیگر اخراجات اس کے علاؤہ ہیں۔محمکہ تعلیم کی جانب سے چھٹی۔ساتویں اور آٹھویں جماعت کے پیپر لینے کا حکم تو دیا گیا لیکن ان کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے گئے اخراجات پورا کرنے کے لیے بچوں سے سو روپیہ فی طالب علم وصولی کی گئی۔دوسری جانب ذرائع کا دعویٰ ہے

کہ گرلزاسکول میں بھی بچیوں کے پیپر شروع ہیں جن کے لیے بچیوں سے کسی قسم کا۔کوئی چارج نہیں کیا گیا۔یہ وصولی صرف بوائز ہائر سکنڈری میں کی جارہی ہے

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسکول کی عمارت کے چاروں کونوں پر لگی سرچ لائٹس رات بھر جلتی ہیں جس سے بجلی کے بل کا زائد آنا تو لازم سی بات ہے۔واضع رہے کہ بوائز اسکول میں تیس روپے ماہانہ وصولی اور پیپر فنڈ کے حوالے سے گزشتہ کئر روز سے مسلسل شکایات سامنے آرہی تھیں

جس پر صحافتی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے الزام کے ساتھ ساتھ اسکول انتظامیہ کا۔موقف بھی قارئین کے سامنے رکھ دیا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں