پروفیسر محمد حسین
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ؐ کو دنیا میں اس لیے بھیجا تھا کہ دین حق کو سارے دینوں پر غالب کر دیا جائے چنانچہ آپؐ نے اس مقصدکے لیے اپنے جسم اور جان کی تمام توانائیاں صرف کرڈالیں اور آپ ؐ کی ساری زندگی دین حق کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے اور دعوت حق دیتے ہوئے گزری آپؐ کا بائیکاٹ کیا گیا آپؐ کو گالیاں دی گئیں آپؐ کے جسم اطہر پر پتھر برسائے گے اور آپؐ کو وطن سے بے وطن کیا گیا لیکن آپؐ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے حضور نبی کریم ؐ کی رحلت کے بعد اس مقصد کو نقطہ عروج تک پہنچانے کے لیے صحابہ کرام ؓ نے کوششیں جاری رکھیں یہاں تک کہ انھوں نے اپنے وقت کی سپر طاقت کے غرور کو قدموں تلے روند ڈالا اگر ہم واقعی آپؐ ہر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں اور آپ ؐ کی محبت ہمارے دل میں ہے تو ہمیں اس مقصد کے لیے جسم و جان کی تمام صلاحیتوں کو لگانا ہو گا حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ رسول پاک ؐ نے ارشاد فرمایا جو قوم جہاد کو ترک کر دیتی ہے ایسی قوم پر اللہ تعالیٰ اپنا عذاب مسلط کر دیتا ہے لیکن جب ہم نے جہاد چھوڑ دیا اور جب ہم موت سے نفرت کرنے لگے تو کافر ہم پر چھا گئے آج وہ ہم پر غالب ہیں اور ہم مغلوب وہ حاکم ہیں اور ہم محکوم ان کی گندی تہذیب ہم پر غالب آچکی ان کا سڑا ہو تمدن ہم اختیار کر چکے ان کی غلیظ ثقافت کو ہم سینے سے لگا چکے ان کے معاشی نظام پر ہم رشک کر رہے ہیں ان کی سیاست کو اپنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کی اتری ہوئی پتلونیں ہم پہن رہے ہیں ان کا بچا ہوا کھانا ہم کھا رہے ہیں اگر پوری دنیا میں ایک نظر دوڑائی جائے اور پوری دنیا کا ایک چکر لگایا جائے تو ہر جگہ ہمیں مسلمانوں کا خون بہتا ہوا نظر آئے گا ہر جگہ مسلمان پٹتے ہوئے نظر آئیں گے جدھر دیکھو مسلمان مظلوم نظر آئیں گے اور بد حوانیتی کا یہ عالم ہے کہ اغیار جھوٹے اور باطل عقائد کو اپنے نظریہ میں غلط ملط کرتے جا رہے ہیں اور نتیجہ دنیا کے اندر پچہتر فیصد مادی وسائل اپنے ہاتھ میں ہونے کے باوجود طاغوت کے سامنے سربسجود ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم سچے رب کو ماننے والے اس کے آخری نبی ؐ کی امت اور اس کے آخری اور سچی کتاب کو سینے سے لگانے والے ہیں پھر بھی دنیا میں ہر جگہ حقیر نظر آتے ہیں جس کا جی چاہے ہمیں نوچتا ہے تباہ و برباد کرتا ہے ہمارے مقدس مقامات کو شہید کرتا ہے مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کرتا ہے اور ہماری نسلوں کو ختم کرنے کے لیے درپے ہے اور ہماری آبادیوں کو ویرانوں میں تبدیل کرتا ہے اور پھر ہمیں ہی قصووار ٹھہرا کر آنکھیں بھی دکھا تا ہے ذرا سوچئیے اور غور کیجئے تو ایک ہی حل ملے گا اور وہ یہ ہے کہ نبی پاکؐ نے واضح طور پر فرمایا کہ جب تم جہاد کو چھوڑو گے تو تم پر ذلت مسلط کر دی جائے گی آج یہی وجہ ہے کہ ہم ہر جگہ مار کھا رہے ہیں چاہے کشمیر ہو یا افغانستان،عراق ہو یا فلسطین آج ہم نام کے مسلمان جہاد کا نام سن کر گھبرا جاتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ کفریہ میڈیا چاہے الیکٹرونک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا سب ہی اسلام کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اسی وجہ سے ہم جہادکا نام اپنی زبانوں پر نہیں لا سکتے اور آج مسلمان مظلوم اور اسلام مغلوب نظر آرہا ہے یہ سب ترک جہاد کے نتائج میں یہ عجیب بات ہے کہ ہم کفر کو ملیا میٹ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں ہم مشرق و مغرب میں اسلام کا غلبہ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جب ہم سے قربانی اور ایثار کا مطالبہ کیا جا تا ہے تو ہمارے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے حالانکہ مومن تو بہادر ہوتا ہے مومن تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا اور مومن شہادت کا سچا طلبگار ہو تا ہے اور دنیا کے کسی گوشے میں ہونے والے ظلم پر تڑپ اٹھتا ہے اس کے لیے نیند
حرام ہو جاتی ہے اسے کھانا پینا زہر محسوس ہوتا ہے مگر ہم کیسے مومن ہیں کہ ہمارے سامنے دین کا مذاق اڑایا جاتا ہے قرآن پاک جلایاجاتا ہے اوراس کی بے حرمتی کی جاتی ہے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی جاتی ہیں بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں لوٹی جاتی ہیں بچوں کو یتیم کیا جاتا ہے نوجوانوں کو مفرور کیا جاتا ہے مگر ہماری ایمانی غیرت بیدار نہیں ہوتی کامل مسلمان بننے کے لیے جذبہ جہاد اور شوق شہادت اتنا ہی ضروری ہے جتنا جانداروں کے لیے پانی اور جسم کے لیے روح ضروری ہے عقلمندوہ ہوتا ہے جو ہواوں کا رخ دیکھ کر موسم کا اندازہ لگا لیتاہے جو بادلوں کے تیور دیکھ کر اپنا سامان سمیٹنا شروع کر دیتا ہے لیکن ہم سب کچھ اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ کر بھی آنکھیں بند کر لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ پچاس سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے اور مسجد اقصیٰ یہودیوں کے ناجائز قبضہ میں ہے سلطان صلاح الدین ایوبی بھی ہماری طرح ایک انسان تھا لیکن ان کے دل میں یہ بے چینی تھی کہ مسجد اقصیٰ کافروں کے قبضے میں کیوں ہے؟
ان کے دل میں یہ خلش تھی کہ اگر ہم اپنے مقدس مقامات کی حفاظت نہیں کر سکتے تو پھر زندہ رہنے کا کیا فائدہ ہے؟ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے اوپر آرام کو حرام کر لیا تھا اور گھوڑے کی پست کو اپنا تخت اوررات کے وقت مصلے کو اپنا بستر بنایا اور راتوں کی کمی تاریکیوں میں اس نے بیت المقدس واپس لینے کی توفیق مانگی چنانچہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے دروازے کھل گئے اور لاکھوں نفوس پر مشتمل صلیبوں کے آہنی لشکر سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے مکڑی کے جالے ثابت ہوئے اور مت مسلمہ آج بھی سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتی ہے مگر سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے قائد کی ضرورت ہے دعا ہے کہ یا اللہ تو ہمیں بھی ایسا قائد عطا فرما دے،یا اللہ ہمیں بھی اپنے اکابر جیسا عزم اور حوصلہ اور نیت عطا فرما۔آمین ثم آمین