224

صدام حسین کی شہادت ایک سبق

کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

ہتھیاروں کے پھیلاو کا بہانہ بنا کر امریکی حکومت نے اپنے دشمن صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ اور 2006ء میں صدام کو پھانسی دے دی گئی۔ بغداد جیل میں امریکی فوجی صدام حسین کے گارڈز تھے۔

ان گارڈز میں سے ایک نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک کتاب تخلیق کی۔ براڈ نورپر نے اپنی کتاب میں اس سچ کو دنیاکے سامنے لا کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور یقینا وہ کامیاب رہا۔ براڈ نورپر کا کہنا تھا کہ ہم بارہ فوجی صدام حسین کے سیل پر تعینات تھے۔ ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے تھے

۔ ہم سب صدام کو اپنا بزرگ سمجھتے تھے۔ کیونکہ صدام حسین کا رویہ انتہائی مہذب اور مہربان انسانوں والا تھا۔ وہ ہم سے اپنے خاندان کی باتیں کر کے سکون محسوس کیا کرتا تھا اور ہم بھی سکون یاب ہوا کرتے تھے۔ جس دن صدام کی باتیں نہ سنتے اس دن گویاہم پیاسے رہتے

۔ صدام کی پھانسی پر ایڈم روگرسن نامی فوجی نے کہا کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میرے خاندان کا کوئی اپنا اور بہت پیارا جدا ہو گیا ہو۔ اور یہ کہ میں خود کو قاتل محسوس کرتا ہوں۔ مصنف کے مطابق جیسے ہی پھانسی کے بعد لاش کو باہر لایا گیا تو لوگوں نے اس پر تھوکنا شروع کر دیا۔

اس موقع پر صدام کے گارڈز امریکی فوجی مشتمل ہو گئے لہٰذا ایک فوجی نے تھوکنے والوں پر حملہ بھی کرنا چاہا مگر میرا خیال ہے کہ صدام کے پہرے دار براڈ نورپر نے محض عراقی عوام کی کردار کشی کے لیے ایسا ہتک آمیز تاثر پھیلانے کی کوشش کی ہے وگرنہ مسلمان کبھی بھی میت کی بے

حرمتی نہیں کر سکتا۔مصنف نے بتایا کہ صدام حسین کے صبر اور حوصلے کی داد دینا ہو گی کیونکہ پھانسی سے چند گھنٹے قبل صدام حسین نے کلچہ کھایا اور بغداد جیل کے پودوں کوپانی دیا۔ ایسا رد عمل ایمان کی قوت کے بغیر ممکن نہیں ہوا کرتا۔

صدام حسین کی پھانسی اور اس کے بعد اس کے خاندان اور خاص طور پر اس کے بیٹے پر گزرنے والے قیامت خیز لمحات اور درد دینے والے واقعات پوری دنیا کے سامنے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ یہ حادثات اور واقعات ایک دم ایک لمحہ میں یا بہت مختصر وقت میں رونما ہر گز نہیں ہوا کرتے ان کے پیچھے صدیوں کے محرکات ہوا کرتے ہیں۔ بیری کے درخت پر پیدا ہونا والا بیر بھی 30 دن سے زیادہ کی پیداوار ہوا کرتا ہے لہٰذا جس چیز کی جہاں میں کوئی خاص اہمیت نہیں اس کے پھیلاؤ اور سکڑاؤ میں خدا کی ذات وقت دیا کرتی ہے

تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ کوئی چیز نکمی نہیں دنیا کے کارخانے میں۔ موت کا رعب و دبدبہ، موت کا خوف، موت سے قبل موت کی تیاری اور اس سے قبل کے گزرنے والے لمحات کوئی کیسے گزارا کرتا ہے

یہ تو ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ کوئی کمزور ایمان والا آدمی جو میری طرح کا گہنگار انسان ہو وہ تو گلے کے معمولی سے آپریشن سے قبل ہی اپنے بلڈ پریشر کو قابو میں نہیں رکھ پاتا

کیونکہ موت کا خوف، موت کا رعب و دبدبہ سے کون واقف نہیں۔ زرا سوچیے کہ صدام حسین نے قبل از پھانسی اپنی پسندیدہ خوراک کھائی اور اپنا باقی ماندہ دن بغداد جیل کے پودوں کو پانی دینے میں صرف کیا۔ یہ تمام حالات و واقعات حقیقت کے عکاس ہیں کہ وہ موت پر یقین رکھنے والا انسان تھا

کہ جس کو جانے سے قبل زرہ برابر بھی خوف محسوس نہ ہوا۔ ورنہ کردار کے داغدار لوگ دنیا کی طاقت کے نشے میں دنیا میں رہ کر اپنوں و غیروں کے لیے خوف و ہراس کا سبب رہ کر ا پنی حیات تمام کر دیتے ہیں مگر جانے سے قبل خود خوف و ہراس کا شکار ہو جایا کرتے ہیں

اور دنیا کے لیے نشان عبرت بن جایا کرتے ہیں۔ یعنی ہم نے اور آپ نے بڑے بڑے برج گرتے ہوئے دیکھے۔ جو افراد یہ سمجھتے تھے کہ یہ زمین ان کے پاؤں کی ٹاپ سے لرز جائے گی

اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اردگرد بسنے والے افراد محض کیڑے مکوڑے ہیں۔ ایک وقت آیاکہ وہ تمام افراد وقت نزع ان ظالمین کے لیے تباہی و بربادی کا سبب بن گئے۔ ایسے دنیا کے فرعونوں نے معافی مانگنا چاہی مگر زبان سے معافی نامہ بیان نہ کر سکے۔ یہ لوگ دنیا میں رہ کر رب کی ذات سے معافی مانگنا چاہتے تھے

مگر وقت نے انہیں وقت نہ دیا۔ مگر کچھ افراد کے معاملات زندگی انہیں کسی قسم کے رنج و غم میں مبتلا ہونے نہیں دیتے۔ کہ ان افراد کی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ گزرا نہیں ہوتا کہ جس لمحے ان کی وجہ سے کسی دوسرے انسان کو کوئی نقصان پہنچا ہو۔ یہ وہ افراد ہوتے ہیں کہ جن کے ہونے سے زندگی کی روانی تواتر سے چلتی رہتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوا کرتے ہیں کہ جن کے ہونے سے معاشرے میں انسانیت کا بول بالا ہوا کرتا ہے۔

یعنی انسانی قدروں کو پروان چڑھاتے چڑھاتے اپنی زندگی کو پروان چڑھا دیا کرتے ہیں اور منفی ازہان والے ان کی تمام تر کاوشوں کو منفی رخ دے کر اقوام عالم میں خود کو بدنام کرتے ہوئے

ایسے افراد کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کو جتنا ہو سکے منفی رنگ دیا جائے تاکہ مادی اور دنیاوی مقاصد کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہ بن سکے۔ یہ افراد اپنی تمام تر کاوشیں معاشرے میں شر کو پائیدار کرنے میں صرف کر دیتے ہیں

۔ مگر مرد قلندر افراد دنیا میں زندہ رہ کر بھی چمک رہے ہوتے ہیں اور جانے کے بعد ان کا کردار پوری نسل انسانیت کو وہ اسباق دے جاتا ہے کہ شر چاہے جتنابھی تیز بن کر اقوام عالم میں تباہی بربادی کے مناظر رقم کرے اس کی تمام تر کاوشیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہوتا یہ ہے

کہ ”اسلام زندہ رہتا ہے ہر کربلا کے بعد“ آج یہ جو معاشرے میں بے شمار برائیوں کے باوجود ٹھہراؤ پایا جاتا ہے یہ صرف ان چند افراد کے کردار کی وجہ سے ہے کہ جو زندہ رہیں تو دنیا کے لیے مثال بن

کر اور جب چلے جائیں تو باقی رہ جانے والوں کے لیے سبق بن جایا کرتے ہیں۔ صدام حسین زندہ رہا تو روشن قندیل کی طرح اور جب جانے لگا تو ایسے پرسکون تھا

کہ جیسے یہ پھانسی کا پھندا اس نے اپنی ڈائری میں روٹین کے کاموں کی فہرست میں درج کیا ہوا ہو۔

اسی لیے تو پھانسی سے قبل شہادت کی انگلی ہوا میں لہرا کراور کلمہ شہادت پڑھ کر شہید ہو گیا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں