آج انٹرنیٹ اور شوشل میڈیا کا دور ہے۔ ہر کوئی اس بخار میں مبتلاہے۔ بچہ ہو ،بوڑھاہو یانوجوان ہرکسی کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔اس لیے ہر کسی کے گھر میں ٹیلی ویژن اور ہر آدمی کے پاس موبائل فون موجودہے اس لیے آج کے دور میں بنا فون کے زندگی ایسے ہی ہے جیسے بنا ریل کے گاڑی۔اس لیے آدمی کے پاس چاہے کھانے کو کچھ نہیں لیکن موبائل فون ضرور موجودہے۔ایک وقت تھا جب گاؤں کے کسی ایک فرد کے پاس موبائل فون موجوہ ہوتاتھا اور پورا گاؤں اس موبائل فون سے مستفید ہوتا تھا۔اور آج گھر کے ہر فرد کے پاس موبائل فون موجود ہے مگر پھربھی وہ اسی کی ضروریات پوری نہیں کر پاتا اس لیے ہر کسی کے پاس ایک نہیں دو دو بلکہ کسی کے پاس تو چار چارموبائل فون موجود ہیں۔ایک دوستوں سے کال کرنے کیلئے اور دوسرا چیٹ کرنے کیلئے رکھا جاتا ہے۔
آج اگر فیس بک پر سٹیٹس اپ دیٹ نہ کیا جائے تو دوست اس کو پینڈو سمجھنے لگتے ہیں اور وہ بیچار نہ چاہتے ہوئے بھی سٹیٹس اپ دیٹ کر دیتا ہے کیونکہ دوستوں کے آگے عزت بھی تو برقرار رکھنی ہے۔ اس لیے موبائل فون فیس بک،وائبر، واٹس اپ اور پتہ نہیں کونسی کونسی ایپلیکیشن سے برا پڑا ہوتاہے۔
آج گھر کے تمام افراد جن میں ماں باپ ،بہن بھائی ، بیٹابیٹی اور میاں بیوی سب سوشل لائزنگ میں گم ہوتے ہیں ۔ شام کو ہوتے ہی لیڈیز اپنے ڈرامہ سیریل دیکھنے میں مبتلا ہوتی ہیں۔شوہر کو کھانا بعد میں دیا جاتا ہے پہلے ڈرامہ دیکھا جاتا ہے اور آگر غلطی سے کوئی سین بچوں کی وجہ سے مس ہو جائے تو بس پھر خاوند کی خیر نہیں۔اس لیے وہ چاہتے نہ چاہتے ہوئے بچوں کو سنبھالتاہے تاکہ بیگم صاحبہ کسی وجہ سے ڈسٹرب نہ ہوں۔آج کل ڈراموں میں جو دیکھایاجاتاہے اسی کی حقیقت آپ سب لوگوں کے سامنے ہیں۔وہی ڈرامہ آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں اور وہی ڈرامہ آپ انے بچوں کو دیکھا رہے ہوتے ہیں جن سے وہ بہت سی غلط چیزیں سیکھ سکتا ہے۔
جیسا کہ ٹارزن آدھا ننگا رہتاہے، سنڈریلا آدھی رات کو گھر آتی ہے، پنوکیوہر وقت جھوٹ بولتا ہے، الہ دین چوروں کا بادشاہ ہے،بیٹ مین ۲۰۰میل گھنٹہ ڈرائیو کرتاہے، رومیو اور جولیٹ محبت میں خود کشی کر لیتے ہیں،ہیری پوٹر جادو کا استعمال کرتا ہے،مکی اور منی محض دوستی سے بہت آگے ہیں،سلیپنگ بیوٹی افسانوی کہانی جس میں شہزادی جادو کے اثر سے سوئی رہتی ہے اور ایک شہزادے کی کس ہی اسے جگا سکتی ہے،ڈمبو شراب پیتا ہے اور تصورات میں کھو جاتاہے، سکوبی ڈو ڈراؤنی خوابیں دیتاہے،اور سنووائٹ ۷ اشخاص کے ساتھ رہتی ہے تو ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ بچے بدتمیزی کرتے ہیں۔ یہ سب چیزیں وہ ٹیلی ویژن ،کارٹون اور سوشل میڈیا سے حاصل کرتے ہیں جو ہم انہیں مہیا کرتے ہیں ۔
اس کے بدلے ہمیں انہیں اس طرح کی کہانیاں پڑھانی چاہیے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہ ختم ہونے والی محبت اور وفاداری، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بردباری اور عدل وانصاف سے پیار،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شرم وحیا کا معیار،حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمت اور حوصلہ،خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی برائی سے لڑنے کی خواہش،فاطمہ رضی اللہ عنہ کا اپنے والد کے لیے پیار اور ادب،صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کی وعدہ کی ہوئی جگہ کے لیے فتح ، اور سب سے زیادہ ہیں اللہ قرآن کریم اور سنت سے پیار یہ سب کچھ پڑھانا چائیے۔
اگر والدین بچو ں پر کچھ توجہ دیں تو دیکھیں تبدیلی کیسے آتی ہے ۔ شوشل میڈیا بچو ں کو ایک حدتک استعمال کرنے دیں۔ کیونکہ آج شوشل میڈیا نے تعلقات کو کمزور کر دیا ہے ۔ کسی اپنے عزیز کا جا کر حال پوچھنے کی بجائے فون پر ہی کام چلا لیا جاتاہے۔ایک وقت تھا جب کوئی فیملی میں سے کوئی شخص بیمار ہوتا تو جب کوئی اس کا حال پوچھنے اس کے پاس جاتا تو آدھا تو وہ اس کو دیکھا کر ہی ٹھیک ہو جاتااور آدھا ڈاکٹر کی محنت سے ٹھیک ہو جاتا۔لیکن وہ چاہت آج نہیں ہے، وہ اپنا پن آج نہیں ہے، وہ رشتے آج نہیں ہیں، آج بس رشتوں میں دھوکہ ہے صرف دھوکہ۔ آج فیس بک پر ہی کسی کی وفات کا یہ پھر کسی کی خوشی کا سٹیٹس اپ دیٹ کر دیا جاتا ہے اور یہ سمجھ جاتا ہے کہ ہم نے اپنا فریضہ سرانجام دے دیاہے۔مگر کسی کے حقیقی غم اور خوشی میں بہت ہی کم شریک ہوا جاتاہے یہ سب شوشل میڈیا کی ہی مرہون منت ہے۔
اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو شوشل میڈیا ایک حد تک استعمال کرنے دیں تا کہ وہ رشتوں کی اہمیت کو سمجھیں۔اپنوں کی چاہت کو جان سکیں،رشتوں میں پیار کیسا ہوتاہے وہ جان سکیں، غم اور خوشی کو کیسے بانٹاجا سکتا ہے وہ سمجھ سکیں۔ اور یہ سب ممکن ہے آپ کی تھوڑی سی کوشش سے اور پھر دیکھیں وقت کیسا بدلتاہے۔ اور نیا دور کیسے شروع ہوتاہے ۔سنہرے خواب کیسے بنے جاتے ہیں اور دنیا کیسے جیتی جاتی ہے۔
110