280

شادی بیاہ کی دم توڑتی روایات/عبدالجبار چوہدری

عبدالجبار چوہدری
شادی بیاہ کے پرانے رسم و رواج دم توڑتے جا رہے ہیں اس وقت کئی دنوں تک جاری تقریبات ایک مرکزی تقریب یعنی ولیمہ میں مجتمع ہو چکی ہے شادی بیاہ کی تقریبات کو بے پناہ اخراجات کا ذریعہ بنادیا ہے ہر کام کی ادائیگی نقدصورت میں ہونے کی وجہ سے مالی بوجھ میں بے حد اضافہ کی وجہ بن گیا ہے میرے ایک دوست نے ہمارے علاقے کی ہی ایک شادی کا احوال سنایا کہ مسجد میں نماز ظہر کے بعد تمام مہمانوں کو مجلس نکاح کی دعوت دی گئی نکاح کے بعد دلہن کے گھر جو مسجد کے قریب ہی تھامہمانوں کی تواضع کی گئی اور مغرب سے قبل رخصتی انجام پائی نہ کئی روز تک ڈھول بجے ‘نہ شہنائیاں گونجیں ‘آتش بازی ہوئی اور نہ لائنٹنگ خواتین نے اپنی تیاریوں میں فضول دولت خرچ کی اور نہ ہی بچوں نے اودھم مچایا ‘ بغیر شور شرابے ،اسراف کے ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑ گئی اب دلہے والے چاہیں تو ولیمہ رشتہ داروں ،برادری تک محدود رکھیں اور چاہیں تو خاص و عام تک ،ذرائع آمدن کے معدوم ہونے کی وجہ سے بہت سے گھرانے ان رسوم و رواج سے جان چھڑانا چاہتے ہیں ہمارے ہاں دن مقرر کیے جاتے ہیں تمام عزیز رشتہ داروں کو دعوت دی جاتی ہے پہلے پہل دور کے رشتہ دار دن مقرر کرنے کے وقت آتے تھے اور بارات کے بعد واپس جاتے تھے ان دنوں میں ہاتھ بٹاتے انتظامات میں مدد کرتے تھے اسی دن درزی نے رات کپڑے سلائی کرنا ہوتے تھے وہ بھی شادی والے گھر میں ہی قیام کرتا اور دن رات کپڑے سلائی کرتا تھا کپڑے بھی تحفہ میں ہوتے اور سلائی بھی مفت اس لیے ہر کوئی گھر میں موجود رہتا تھا ان مقرر کردہ دنوں میں لکڑی کی کٹائی کی جاتی پکوائی کے لیے دیگر سامان کی خریداری کے لیے یہی دن مخصو ص ہوتے کیونکہ ان سب کاموں اور امور کی انجام دہی کے لیے افرادی قوت درکار ہوتی تھی اس لیے دن مقرر کیے جاتے اور زیادہ تر لوگ ان تمام دنوں میں وہاں موجود رہتے تھے اب جبکہ تمام کام کرنے والے الگ سے ہوتے ہیں کپڑے ہر کوئی اپنی مرضی سے خریدتا اور من پسند درزی سے سلائی کراتا ہے اور پکوان بھی آرڈر پر تیار ہو کر آجاتے ہیں اب اس کی جگہ شادی مقرر کرنے والے دن نکاح کی تقریب کر دی جاتی ہے،مہندی ،مایوں کی رسمیں فوٹو سیشن میں تبدیل ہو چکی ہیں قبل ازیں جو سوغات رس،پتاسے،جلیبی، مٹھائی اور باقر خانی کی صورت میں لائی جاتی تھیں ان سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی روزمرہ استعمال کی وجہ سے ان چیزوں کی اہمیت بھی نہیں رہی ہے ان تقریبات کے ذریعے خوشی کا اظہار مقصود ہوتا ہے روپے ،پیسے کی ریل اور ملکی قوانین کو لچک دارہونے کی وجہ سے بااثر لوگوں نے گانے بجانے کی محافل اور آتشیں اسلحے کی فائرنگ کوشادی ،بیاہ کی تقریبات کا حصہ بنا لیا ہے ان کے دیکھادیکھی بہت سے لوگ بھی میدان میں آگئے اور شادی بیاہ کی تقریبات اسراف کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئیں جس سے متوسط طبقہ متاثر ہونا شروع ہو گیا ہے اس موقع کو یادگار بنانا ہر ایک کی خواہش ہو تی ہے اس خواہش کی وجہ سے ہی نت نئی چیزوں کو عمل دخل شادی کی تقریبات میں شروع ہو تا ہے کھانوں کے اسراف کو روکنے کے لیے ون ڈش کا قانون متعارف کرایا گیا مگر عوام کے عدم تعاون کی وجہ سے یہ بھی ناکام ہو گیا اب اگر کوئی شادی کے اخراجات کا رونا روتا ہے تو یہ سب وہ اپنی مرضی سے کرتا ہے اور تمام تر ذمہ داری بھی اسی پر ہی عائد ہوتی ہے کاروباری ہے تو منافع کی شرح زیادہ رکھ کر وہ ان اخراجات کو برابر کر ے گا ،کسی اور شعبے میں ہے تو غیرقانونی ذرائع اختیار کر کے ان بھاری اخراجات کو پورا کرے گا غرض کہ شادی پر اخراجات اس کی زندگی کو قرض تلے بھی دبا سکتے ہیں اور جس سے وہ مشکلات کا شکار رہتا ہے یہ اخراجات عزیز رشتہ داروں کے تعاون سے کم ہو سکتے ہیں مگر ہر جگہ ایسا ممکن نہیں ہم اگر شادی کی رسومات ختم کریں تب ہی اخراجات میں کمی کرنے کی ضرورت ہے سہرا اورنوٹوں کے ہار کا رواج ختم ہو چکا ہے اب مہندی بھی غور کرنے کی ضرورت ہے برقی قمقموں پر پابندی قانون کے ذریعے لگائی جائے ذرائع آمدن کو ظاہر کرنا بڑی تقریب کے انعقاد کے ساتھ مشروط کیا جائے ہر ایک کے لیے قانون پر عمل یکساں بنایا جائے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں