
صحت اور تعلیم دو ایسی بنیادی چیزیں ہیں جو ہر انسانی معاشرے کو پروان چڑھانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں اور دنیا کی ہر ریاست کی
اہم ترین ذمہ داریوں میں شامل ہیں یعنی دنیا کا ہر ملک یہ دو بڑی سہولیات اپنی عوام کو مفت فراہم کرنے کا پابند ہے
اسی طرح آئین پاکستان کی روح سے ریاست پاکستان بھی میٹرک تک مفت تعلیم اور بنیادی طبی سہولیات ہر شہری کو دینے کی پابند ہے۔مگر موجودہ حکومت نے مشکل وقت کے نام پر جہاں عوام سے اور بہت سی قربانیاں دلوائی ہیں وہیں
پر صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات بھی چھیننے کے درپے ہے۔ بظاہر تو یہ امیج بنایا جا رہا ہے کہ عوام کی بہتری کے لیے سب کچھ کیا جا رہا ہے اور پرائیوٹائزیشن سے انقلاب برپا ہو گا اور کچھ نادان ان باتوں میں بخوبی آ بھی رہے ہیں
مگر یہ صرف ایک لولی پاپ ہے۔جو صاحب حثیت ہیں وہ تو پہلے ہی مہنگے سکولوں کا انتظام کیے ہوئے ہیں اور علاج بھی مہنگے ہسپتالوں میں کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر جس غریب کو دو وقت کی روٹی کی فکر ہمہ وقت ستائے رکھتی ہے
اوپر سے اس کے چار یا پانچ بچے بھی ہوں بھلا وہ 1300 روپے فی بچہ فیس بھر کر کیسے بچوں کو تعلیم دلوا سکتا ہے اور یہ 1300 کچھ عرصہ بعد 2000 تک بھی جائے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گی بھی۔اس غریب دیہاڑی دار کوکم سے کم یہ سہولت تو تھی کہ کسی گورئمنٹ سکول سے کوئی بچہ میٹرک کر کے اس کا سہارا بن سکتا تھا
۔ ویسے بھی اس ملک کا نظام ایسا ہے متوسط طبقہ بھی اگر پرائیویٹ بچے پڑھائے بھی تو پانچویں تک ہی بامشکل فیسیں بھر سکتا ہے۔ لگتا ایسے ہے کہ گورنمنٹ کو اس وقت صرف پیسے چاہیے ہر ادارے کو اونے پونے داموں بیچ کر صرف وقت ٹپانا مقصود ہے باقی پرائیویٹ کمپنیاں جانیں عوام جانے اللہ اللہ خیر صلا۔اگر ریاست واقعی تعلیم اور صحت کے شعبے میں انقلاب کی خواہش مند ہے
تو پھر ریاست کا کام اداروں کو ٹھیک کرنا ہے۔نظام کو اپ گریڈ کرنا ہے،جدید تقاضوں کے مطابق سہولیات فراہم کرنا ہوتی ہیں اور پڑھے لکھے دیانتدار اور قابل بندوں کو آگے لا کر پھر مکمل چیک اینڈ بیلنس کرنا ہوتا ہے
۔نہ کہ سب کچھ بیچ بچا کر نوٹ ہتھیا لیں۔اور ایک اور بات جب سب کچھ پرائیویٹ تنظیموں کے حوالے ہو جائے گا کل کو مستقبل میں وہ اپنی مرضی کا نصاب لانے کے مجاز بھی ہوں گے کیا پتہ کون کس لابی کا بندہ ہیڈ بن جائے اور اور کس کی مرضی کا نصاب فٹ ہر دیا جائے یہ بھی ایک فکر طلب پہلو ہے۔نوٹ احباب کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہے مگر ایک بات یاد رکھیں اس ملک کی 80 فیصد آبادی کا بھی ضرور سوچیے گا۔