حکمرانوں کی افتادِ طبع اور ہوتی ہے۔ وہ من موج کے بندے ہوتے ہیں،مہنگائی،عدم مساوات،بے روزگاری ،وہ ان الفاظ سے ممکن ہے آشنا تو ہوں مگر ان کے درد سے کبھی بھی آشنا نہیں ہوتے۔طبیعت گذشتہ سات ماہ سے ناساز ہے۔جس بیماری کے باعث ہسپتال داخل ہونا پڑا اس سے قدرے آفاقہ ہوا تو دائیں بازو میں درد اور تھکن جم کر رہ گئے۔ مگر کیا ایک اخبار نویس اپنے موضوعات سے اس قدر بھی لا تعلق رہ سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نعروں کے خریدار ہیں،نعروں کا بیوپار یہاں خوب جمتا ہے۔کوئی چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید سناتا ہے تو کوئی بیروزگاری کے خاتمے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتا ہے۔ کوئی مائیک کو ہاتھ سے گرا کر عوامی جذبات سے یوں کھیلتا ہے کہ وہ اپنی مخالف سیاسی جماعت کے سربراہ سے لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر اسے سڑکوں پر گھسیٹے گا۔کوئی انقلاب کے نام پر موسم سرما و گرما کے آتے ہی سڑک پر قبضہ جما لیتا ہے،تو کوئی اس پورے نظام کی بساط یوں لپیٹنا چاہتا ہے کہ وہ ایک بالکل نیا اور منفرد پاکستانبنائے گا۔ کوئی کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کرتا ہے تو کہں اسی کرپشن والی حکومت کے ساتھ دوسرے خطے میں اتحاد کر لیتا ہے۔کسی کی سیاست اسلامی نظام کے گرد گھومتی گھومتی کشمیر کمیٹی تک جا پہنچتی ہے توکوئی کراچی کے امن کا نعرہ لے کر اس کے امن پر وار کرتا ہے۔کسی نے یہ نعرہ بھی لگایا ہوا ہے کہ وہ عوام کو روٹی کپڑا اور مکان ضرور دیں گے۔مگر سب کی سب سیاسی باتیں اور فریب کاری ہے۔کیا حکمران اپنے عوام سے اس قدر بھی لاتعلق ہو سکتے ہیں؟ اگرچہ انھیں یہ دعویٰ بھی ہو کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور یہ کہ وہ دو تہائی اکثریت والا مینڈیٹ رکھتے ہیں۔ہماری سیاسی تاریخ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کیا ہے؟ آمروں کی پذیرائی اور کاسہ لیسی میں زندگی بتانے والے سیاست دان بھی جمہوریت اور عوام دوستی کا دم بھرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔سستے رمضان بازار اس امر کا ثبوت ہیں کہ لوگوں کو اشیائے ضروریہ سستے داموں نہیں ملتی ہیں،میرے نزدیک کسی بھی حکومت کا یہ بد ترین دور ہوتا ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے اس طرح کے’’ سستے بازای ہتھکنڈے‘‘ استعمال کرے۔کیا سستے رمضان بازاروں میں لوگوں کو اشیائے ضروریہ سستے داموں ملتی ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔اگر ایک دو اشیا کا ریٹ بازار کی نسبت کم ہو گا تو دیگر کا زیادہ،اس پر مستزاد یہ کہ سستے رمضان بازاروں کی بیشتر اشیا اپنی کوالٹی کے اعتبار سے قابلِ گرفت ہیں۔
ایک بہترین حکومت کے ہوتے سستے رمضان بازاروں کی ضرورت نہیں رہتی،کیونکہ بہترین حکومت کا ایک خاصا یہ بھی ہے کہ وہ مارکیٹ پر نظر رکھتی ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کس چیز کا نام ہوا کرتا ہے؟سستے رمضان بازاروں کا میلا اس بات کا بھی شاہد ہے کہ لوگوں کی قوتِ خرید نہیں رہی اور حکومت کے معاشی دماغ کہ جو عوام کا خون نچوڑتے ہیں وہ انھیں مارکیٹ میں خریداری کے لیے لانے کو سستے بازاروں کا ڈرامہ رچایا کرتے ہیں۔ کیا یورپ میں کرسمس کے موقع پر بھی اسی طرح حکومتی سطح پر سستے کرسمس بازار لگائے جاتے ہیں،یا وہاں دکاندار از خود اپنا منافع کم کر دیتے ہیں؟ ہمارے ہاں مگر رمضان المبارک کو لوٹ مار کا مہینہ سمجھ لیا گیا ہے۔ٹماٹر جو بیس روپے کلو تھے یکم رمضان سے ساٹھ روپے کلو بھی فروخت ہوتے رہے،دمِ تحریر غالباً تیس سے چالیس روپے فروخت ہو رہے ہے، آم،آڑو اور سیب اس سے سوا ہیں۔حکمران مگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی چال بازیاں لوگوں کا دکھ کم کر دیں گی۔ان کی افتادِ طبع مگر اور ہوتی ہے۔اگر اخباری بیانات سے لوگوں کے دکھ کا مداوا ہو سکے تو پھر لوڈشیڈنگ عوام کو بے حال کیوں کرے؟پھر لوگ مہنگائی کا رونا کیوں روئیں؟ حکمران طبقے کے اخباری بیانات پڑھیں،کہ اندھیرے ختم کر دیں گے،بٹن دبائیں اور بلب آن کر لیں،پنکھا چلا لیں۔اخبار ہاتھ میں پکڑیں اور بازار میں جا کر بغیر اینٹیں ملی مرچیں خرید لیں،گدھے کے بجائے گائے بھینس کا خالص گوشت خرید لیں۔ایسا مگر ہوتا نہیں۔الزام تراشی اور بیان بازی اور چیز ہے،اقدامات چیزِ دگر۔اقدامات سے گریز کرنے والے حکمران جز وقتی ہتھکنڈوں سے وقت گذارنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔دکھ اس وقت سوا ہوتا ہے جب منتخب نمائندے اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے عوامی جذبات اور ضروریات کا مذاق اڑائیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ۔کوئی چار برس پہلے۔ ٹماٹر کی قیمتیںآسمان کو چھو رہی تھیں کہ پیپلز پارٹی کے ایک ایم این اے نمودار ہوئے اور بیان دیا کہ لوگ ٹماٹر کے بجائے دہی استعمال کریں۔اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی یہ نہایت کرب ناک مثال ہے۔ثابت ہوا کہ منہ زور تاجر،جو بہرحال سیاست دانوں کے انتخابی فنانسر ہوتے ہیں، حکومتیں عوام کے بجاے ان کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں۔گذشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے تو حد ہی کر دی،پارلیمان میں بجٹ پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ اگر دال مہنگی ہے تو عوام مرغی کھائیں۔دیدہ ور تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آنجناب نے اسمبلی میں حمزہ شہباز کے کاروبار کی مارکیٹنگ کی۔اس میں کلام ہی کیا ہے؟بے شک ایسا ہی کیا گیا کہ مقصود اپنے ’’سیاسی پیروں‘‘ کے کاروبار کو آسمانی وسعتیں دینا ہے۔کیا مرغی سستی ہے؟ اور اگر سستی بھی ہو تو کیا ہر روز مرغی کھائی جا سکتی ہے؟ جبکہ دال تو روز بھی کھائی جا سکتی ہے۔کیا صرف مرغی کے سستا ہونے سے عوام کا گھریلو بجٹ متاثر نہیں ہو گا؟ ہو گا کیونکہ دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ فرانس کے ،انقلاب محل کے باہر اپنے حق میں آواز بلند کرنے والے لوگوں کو ملکہ عالیہ نے کہا تھا کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔وزیر خزانہ کا بیان بھی ممکن ہے ہماری قومی تاریخ کا دھارا بدل دے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔تا آنکہ عوام کے جذبات اور ضروریات کا مذاق اڑانے والے اپنے انجام کو پہنچیں۔{jcomments on}
146