79

‘رشوت دینے والے کیخلاف پولیس کی مبینہ چشم پوشی

رشوت ایک ایسا ناسور ہے جو ریاستی اداروں کی بنیادیں کھوکھلی کر دیتا ہے۔ پاکستان میں اس کے خلاف قوانین موجود ہیں، مگر اصل مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمد کا ہے۔ اگر قانون پر مکمل عمل ہو، تو نہ صرف پولیس اہلکار بلکہ طاقتور بااثر افراد بھی انصاف کے کٹہرے میں لائے جا سکتے ہیں رشوت لینا اور دینا پاکستان کے قانون میں ایک سنگین جرم ہے، اور اس کے خلاف مختلف قوانین کے تحت سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں پاکستانی قانون میں رشوت کے خلاف قانونی دفعات پاکستان پینل کوڈ (PPC)، 1860پاکستان پینل کوڈ کی متعدد دفعات رشوت سے متعلق جرائم کو بیان کرتی ہیں اگر بات کی جائے دفعہ161کی تویہ دفعہ سرکاری ملازم کے ذریعہ غیر قانونی طور پر رقم یا فائدہ لینے سے متعلق ہے۔

اگر کوئی سرکاری ملازم اپنے اختیار کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی سے نقدی یا فائدہ لیتا ہے (یا لینے کی کوشش کرتا ہے) تو وہ اس دفعہ کے تحت مجرم ہے اور اس کے لیے سزا3 سال تک قید جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ ملتی ہیں یہ تو رشوت لینے کے حوالہ سے قانون ہے لیکن اگر نظر ڈالیں کہ رشوت دینے والے پر بھی کوئی پکڑ ہے تو دفعہ 162 کے تحت سرکاری ملازم کو رشوت دینے کی کوشش کرنے والے فرد کے خلاف لگتی ہے اسکے علاوہ دفعہ 163 اور 164یہ دفعات ایسے افراد سے متعلق ہیں جو کسی سرکاری ملازم کے اثر و رسوخ کو استعمال کر کے فائدہ حاصل کرنے کے لیے رقم یا تحفے دیتے یا لیتے ہیں اب ایک نظر اصل مدعے کی طرف۔

یہ دن تھا 15جنوری2025 کا راولپنڈی میں راجہ دانیال کو نامعلوم حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کرکے قتل کردیا میڈیا پر بریکنگ نیوز چلی افسران نے ایکشن لیا سیکیورٹی کی ناکامی اور سیکیورٹی میں غفلت برتنے پر 23 پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا معطل ہونے والوں میں ایک انسپکٹر، ایک سب انسپکٹر، تین اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، اور 15 کانسٹیبلز شامل تھے یہ اہلکار انسداد دہشت گردی عدالت، کمشنر آفس، ڈپٹی کمشنر آفس، پرانے ضلعی عدالتوں، اور سیف سٹی کمپلیکس کی سیکیورٹی پر تعینات تھے پھر DSP ایڈمن شاہدہ یاسمین کو انکوائری افسر مقرر کیا گیاجنہوں نے تمام معطل اہلکاروں کو طلب کیا اور ان کے خلاف چارج شیٹس جاری کیں سیکیورٹی انچارجز کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے، اور عدم تعاون کی صورت میں سخت محکمانہ کارروائی کی وارننگ دی گی۔یہ بازگشت ابھی تک کم نہ ہوئی تھی کہ گزشتہ دنوں راولپنڈی کی فضا ایک بار پھر ایک شرمناک منظر کی گواہ بنی، جہاں انصاف کے ایوانوں کے دروازے پر قانون کے رکھوالے ہی قانون کو پامال کرتے دکھائی دئیے ہیں عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک قتل کے مبینہ ملزم کو پولیس اہلکاروں میں رقم تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیایہ کوئی افواہ نہیں بلکہ ایک ویڈیو کی شکل میں سچ سامنے تھاوردی میں ملبوس محافظ قطار بنائے کھڑے ہیں، اور ملزم ”فیاضی” کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی جھولیاں بھر رہا ہے۔

لگ ایسے رہا تھا جیسے یہ کوئی عام فرد نہیں بلکہ کوئی انتہائی بااثر سیاسی ہو اور موصوف کی اپروچ اتنی ہوکہ وہ باوردی افرادکو لائن میں لگا سکتا ہے پولیس زرائع اس بات کے دعویدار تھے کہ مزکورہ ملزم پر چوہدری عدنان کے قتل کا الزام تھا اوراسکا مقدمہ 12 فروری کو سِول لائنز تھانے میں درج کیا گیاقتل کے نامزد ایک کیس میں نامزد ملزم کا عدالت آنا ایک تقریب کی شکل اختیار کر چکا ہے پروٹوکول، مسکراہٹیں، اور پھر پولیس اہلکاروں میں نوٹوں کی تقسیم کیا ہمارا نظام انصاف صرف کمزوروں کے لیے رہ گیا ہے؟ کیا عدالتوں کا تقدس صرف غریب ملزم کی زنجیروں سے جڑا ہے اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سی پی او راولپنڈی سید خالد ہمدانی نے فوری کارروائی کا اعلان کیاویڈیو میں نظر آنے والے انسپکٹر منظورسب انسپکٹر ولایت، اور ہیڈ کانسٹیبل سقلین کو معطل کرکے انکوائری شروع کردی ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ قانون حرکت میں آگیا اور اسکا عتاب باوردی اہلکار بنے۔

لیکن کیا سینئر افسران نے اس شخص کے خلاف کوئی ایکشن لیا جو سرعام رشوت دے رہا تھا اگر نہیں لیا تو اسکا زمہ دار کون اور ایسے بااثر اشخاص کو کون گرفت کریگا اگر مزکورہ شخص کے خلاف ایکشن نہیں ہوتا تو یہ محاورہ سچ ثابت ہوتا ہے کہ قانون باثر افراد کے لیے مکڑی کے جالے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا راولپنڈی پولیس کے سینئر افسران کی خاموشی یا چشم پوشی اس بات کی گواہ ہے کہ ایسے ہی ملزمان بااثر نہیں بنتے بلکہ قانون کا اندھا پن انہیں بااثر بناتا ہے قانون کو قانون کے پاسداران کا ساتھ دینا چاہیے نہ کہ قانون شکنوں کا کیا راوالپنڈی پولیس کے سینئر افسران قانون شکنوں کیخلاف کوئی ایکشن لینگے یامٹی پاو پالیسی پر گامزن ہونگے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں