گذشتہ شمارہ میں نو وارد اور نوجوان محمد انشال کی تحریر ’’ذرا معذرت سے‘‘پڑھی۔ اس عمر میں ایک گھمبیر اور بنیادی مسلہ یعنی نظام تعلیم پر ایک اچھی تحریر ہے۔(جو قارئین گذشتہ شمارہ میں نہیں پڑھ سکے وہ ضرور پڑھیں)محمد انشال نے مختصر اور خوبصور ت انداز میں ہمارے نظام تعلیم میں موجود کچھ خامیوں کی نشاندہی کی اور ساتھ ہی ان کی درستگی کے لیے تجاویز دیں۔ جوکہ نہ صرف مفیدہیں بلکہ آسانی کے ساتھ قابل عمل بھی ہیں۔محمد انشال کی تحریر پڑھتے ہوئے مجھے سکول کی زندگی کے دو واقعات یاد آئے۔پہلا واقعہ بزرگ قارئین کو یقینی طور پر ان کی سکول کی زندگی میں لے جائے گا۔راقم جب نویں جماعت میں تھا تو اس زمانہ میں میرے مرحوم پھوپھی زاد امتیاز حسین فوج سے سالانہ تعطیل پر گھر آئے ہوئے تھے۔ مرحوم امتیاز حسین نے فوج میں گریجویشن کی تھی۔ جبکہ پڑھنے کیساتھ ساتھ پڑھانے کا شوق رکھتے تھے۔لہذا میں ان کے حکم پر نویں کی انگلش ان کے پاس پڑھنے کے لئے روزانہ ان کے گاؤں جانے لگا۔ان کی رہائش گاہ چراہ گاہ کی جانب گاؤں میں واقع ہے۔شام کو بالخصوص واپسی کے وقت چرواہے اپنے ڈور ڈنگر واپس لاتے ہوئے ملتے تھے۔انہی میں ہمارے گاؤں کے بزرگ مرحوم علی شان تھے۔ایک دن جب میں واپس آرہا تھاتو مرحوم علی شان نے مجھے بلایا اور مجھ سے انگلش کی کتاب لی اور ایک پیراگراف کا ترجمہ پوچھاجب میں ترجمہ سناچکا تو مرحوم علی شان نے کتاب کے چند اوراق پلٹے اور پوچھا کہ کیا یہ سبق بھی میں پڑھ چکاہوں ۔ میرے مثبت جواب پر انہوں نے ازخود کچھ انگلش پڑھی اور پھر لفظ بہ لفظ اور با محاورہ ترجمہ کیا۔اور کہا کہ کہیں میں یہ نہ سمجھوں کہ ان کو کچھ آتا نہیں۔پھر کتاب بند کر کے انہوں نے بتایا کہ وہ مڈل پاس ہیں اور ان کے زمانہ طالبعلمی میں سکول کی سرپرائز چیکنگ باقاعدگی سے ہوتی تھی جس میں افسر اعلیٰ معلمین کے سامنے مکمل شدہ نصاب سے کہیں سے بھی اور کسی بھی طالب علم سے ٹیسٹ لیتے تھے۔ اس ٹیسٹ کے پاس یا فعل ہونے کی صورت میں موقع پرہی تعریف وستائش یاپھر تنبہیہ یا سرزنش کی جاتی تھی۔جس کی وجہ سے ہمارے (یعنی علی شان مرحوم)استاذہ ہمیں ٹیسٹ کے لئے ہمیشہ تیار رکھتے تھے۔میرے نوجوان اور ہم عمر قارئین اگر اپنے نانا ،دادا یا ان کے ہم عصروں سے اس بابت دریافت کریں تو یقیناًمیری اس بات کی تصدیق ہو گی۔میں نے دس سال کی ابتدائی تعلیم ایک ہی سرکاری سکول سے حاصل کی۔یاد نہیں آرہا کہ ان دس سالوں کے دوران ایک بار بھی کوئی ایک ایسا واقعہ ہوا ہو کہ جس میں کسی افسر اعلیٰ نے ہمارا کوئی ٹیسٹ لیا ہو۔دوسراواقعہ انہیں دس سالوں میں اسی سرکاری سکول میں پیش آیا کہ جس میں میں زیر تعلیم رہا۔ موسم سرما کی کلاسز باہر سکول کے صحن میں دھوپ میں لی جاتی تھیں۔پہلے پریڈ میں چونکہ حاضری بھی لی جاتی تھی تو بعد از حاضری رجسٹر حاضری کو سکول کے دفترمیں رکھنے کے لئے کسی نہ کسی طالب علم کو بھیجا جاتا تھا اور وہ اکثر اوقات میں ہی ہوتا تھا۔ایک دن جب میں حاضری رجسٹر سکول دفترمیں رکھ کے واپس آیا تو مرحوم استاد محترم ہمیں ایک مضمون لکھوا رہے تھے۔ ماسٹر صاحب کا انداز یہ تھا کہ وہ پہلے عنوان مضمون اور تمام سرخیاں لکھواتے اور پھر ہر سرخی کی تفصیل لکھواتے۔جب اجازت لے کے بیٹھا تو ماسٹر صاحب نے کہا کہ دو تین لکیریں خالی چھوڑ دو اور آخرمیں کسی ساتھی طالب علم سے رہ جانے والی سرخیاں اور عنوان مضمون لکھ لوں۔یوں اس وقت جو پہلی سرخی میں نے لکھی وہ اب بھی مجھے یاد ہے ’’پتریاٹہ چیئرلفٹ‘‘تھی۔ یہ سرخی اور چند دوسری سرخیاں لکھنے کے بعد مجھے اس وقت اس کم عمری میں بھی شدید جھٹکا لگاکہ جب میں نے عنوان مضمون لکھا۔عنوان مضمون تھا ’’ایک تاریخی مقام کی سیر‘‘ جبکہ مرحوم استاد محترم نے ’’ایک تاریخی مقام کی سیر‘‘ کے عنوان کے نیچے ٹیسٹ پیپرز ’’ایک پر ٖفضامقام کی سیر ‘‘ والا مضمون لکھوادیا۔( قارئین راقم کی اغلاط کو اس واقعہ کے طفیل معافی کے مستحق سمجھا جائے) ۔راقم ان دوواقعات کا مزید تجزیہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ احترام استاد مانع ہورہا ہے۔اس لئے آپ خود ہی سے نتائج اخذ کرلیں۔
اس تحریر کا اصل مقصد نوجوان محمدانشال کی حوصلہ افنزائی ہے اور ساتھ ہی زیست کے دوتلخ و شیریں واقعات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!{jcomments on}
125