81

دل کی بات زبان پر (بھڑاس ) سلیم شہزاد کی نہ لکھی ھوئی ڈائیری سے اقتباس

دل کی بات زبان پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( بھڑاس )  میں ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھا نوکری آخری مراحل میں تھی پنشن ہونے والی تھی مگر جوں جوں دن قریب آتے جا رہے تھے فکر بڑھتی جا رہی رھی تھی کہ گزارہ کیسے ہوگا . ساری نوکری چوکیداری میں گزار دی کوئی ہنر نہیں تھا اپنے پاس جو ریٹائرمنٹ کے بعد کام آتا تعلیم بھی انڈر میٹرک تھی اسی سوچ میں گم تھا سر کو پکڑے بیٹھا تھا کہ اپنا ایک جگری یار جان محمد آ گیا اس کا تعلق سیالکوٹ سے تھا اس نے اس نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو سچ بتا دیا اس کو کہ یہ وجہ ہے اللہ بھلا کرے اس کا کہتا ہے اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے ایسا کام بتاوں گا بغیر خرچہ کیے آمدن.ہی آمدن اس نے یہ بات کہی کہ میری آنکھیں کھل گئیں ،مگر میں نے اس کو جواب دیا کہ میرے پاس نہ ہنر ہے نہ تعلیم تو اس نے کہا تمھارے پاس وہ کچھ ہے جو کم ہی لوگوں میں ہوتا ہے اور میں حیران کہ ایسی کیا خداداد صلاحیت ہے مجھ میں.. تو پھر جان محمد جسے پیار سے ہم جانو کہتے تھے نے بتایا کہ تم سارا دن افسروں کی تعریفیں کرتے ہو اور وہ خوش ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے انسان تعریف کا بھوکا ہے بس یہی کام پنشن کے بعد بھی جاری رکھنا… اس نے پھر وہ کام بتایا دوستو کہ کیابتاؤں ابھی تک دال روٹی چل رہی تھی مگر کچھ عجیب قسم کے لوگوں نے اس بزنس کا بیڑہ غرق کر کہ رکھ دیا ہے ، خیر بات ہو رہی تھی پنشن کےبعد کیا کروں گا اور وہ دن آخر آ ہی گیا مجھے گھر آنا ہی پڑا اور چند ماہ. بعد اس دوست کےبتائےدیے گئےمشورے پر عمل کیا اور ایک پانچ ہزار روپے کا چھوٹا کیمرہ خرید لیا اور سارا دن لوگوں کی تصویریں بنا بنا کر اور ختم ، ولیمہ جنازہ الغرض ہر جگہ پہنچ جاتا تھا شروع میں بہت محنت کرنا پڑی اور میں نے ویزیٹنگ کارڈز بھی بنوا کر لوگوں کو تقسیم کر کے کہنا شروع کر دیا کہ کہیں ماتم شادی ولیمہ یا حقیقہ ھوآ تو مجھے ضرور بلانا یہ کام مشکل ضرور تھا مگر آہستہ آہستہ لوگوں کو لگنے لگا کہ میں بھی کوئی صحافی ہوں اب تو کسی ایم پی اے لیول تک کے بندے کا انٹرویو بھی کر سکتا اگر کوئی ساتھ ہو ہیلپر… ایسا انٹرویو کرتا ہوں کہ وہ خودبھی حیران ہوتا ہے کہ اس کے اندر اتنی خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں جو اسے خود بھی معلوم نیں ہوتی .اور ویسے بھی نوکری کے دوران کم تحلیم کی وجہ سے افسروں کے دل میں میں نے جس “خوبی ” کی وجہ سے بات بنائی ھوئی تھی وہ اب یا ریجنل فیلڈ میں کام آرھی تھی  اور پھربھلا ھو انٹرنیٹ کا کہ  انٹرنیٹ کی دنیا میں وہ دھوم مچائی کہ نہ پوچھیں ہاں مسئلہ کبھی کبھار بنتاہے جب خبر لکھنی پڑ جائےوہ بھی بھلا ہو حافظ صاحب کا معاونت فرماتے ہیں اللہ ان کو اجر عظیم عطا فرمائے اور بہت کوشش کے باوجود کیمرے کا سامنا نہیں کر پا رہا ٹانگیں کانپتی ہیں اور آواز تھر تھرا جاتی ہے… جوں جوں دن گزرتے گئے لوگ مجھ سے متاثر ہوتے گئے آخر کار اپنے نام کے ساتھ خود ساختہ صحافی کا ٹیگ لگ ہی گیا اب تو وہ کام شروع ہوگیا جس کے لیے اتنی محنت کی تھی نزر نیا ز بھی آنے لگی اور مسجد ،مدرسے ، کنویں کی اپیلیں بھی …مانگتا نہیں کسی سے جو دے دے لے لیتا ہو… یہ بھی اندر کی بات ہے اس طرح ذیادہ ملتے ہیں بندہ شرم کے مارے ذیادہ ہی دیتا ہے تقریبََا ریٹ سب کو پتا ہی ہوتا ہے.. اور بھلا ہو اس نیک شخص کا جس نے پچاس ہزار کا کیمرہ تحفے میں دے دیا مگر شرط یہ تھی کہ پہلی فلم اس کے گاوں کی بنے گی سودا مہنگا نہیں تھا اس کے گاؤں میں اس کی کوٹھی تھی ہم نے ساری دنیا کو دکھا دی وہ بھی خوش ہم بھی خوش اور یوں میری پریشانی ختم ہوئی ہر زبان پر میرا نام تھا دنیا کے ہر گوشے میں میر ےنام کا طوطی بول رہا تھا کہ اچانک ایک سر پھرے سے بندے نے جس کو پیسے جیب سے خرچ کر کہ صحافت کرنے کابھوت سوار ہے اس نے تو بیڑہ ہی غرق کر دیا…جن کو سائیکل چلانا نہیں آتا تھا ان کو بھی کیمرے اور مائیک تھما دیے …………………. بہت الجھن میں ہوں دوستو رات کو صیح طرح سو بھی نہیں پاتا اکثر میٹر گھوم جاتا ہے سوچتا ہوں کہیں دور جنگل میں چلا جاؤں پہلے کی طرح جہاں صرف میں ہی ہوں جنگل کے ہر کونے میں ریجنل رپورٹر بن کر کام کروں مگر پھر سوچتا ہوں وہاں تو سکی رپورٹنگ ہی ہو گی ملے گا کیا   …………..نہ نزرانے نہ خیرات نہ مفت کی روٹیاں نہ بلے بلے{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں