عبدالستارنیازی/دسمبر ختم ہو چلا، وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور وقت کو وہی لوگ یاد رہتے ہیں جو وقت کی قدر کرتے ہیں، سال 2020 بہت سارے نگینے اپنے ساتھ لے گیا بہت ساری معروف اور قابل قدر شخصیات اس دار فانی کوچھوڑ کر دار بقا کی جانب ہجرت کر گئیں، بہت سارے اہم اور بڑے واقعات رونما ہوئے جن کی تفصیل لکھنا میرے بس میں نہیں،پاکستان کی عظیم درگاہ گولڑہ شریف کے گدی نشین پیر سید عبدالحق شاہ گیلانی المعروف چھوٹے لالہ جی اور گوجرخان و گردونواح سے تعلق رکھنے والی شخصیات سید آل عمران، سائیں اسرار الحق کلیامی، قاری ظہور احمد چشتی، عبدالرحمن مرزا، سابق جج ارشد ملک خالق حقیقی سے جا ملے، ان کے علاوہ پاکستان بھر میں مذہبی، سیاسی، سماجی شخصیات کے علاوہ دنیا بھر میں مسلمان و غیر مسلم انسانوں کی کثیر تعداد کرونا وائرس کے سبب انتقال کر گئی، پیر آف گولڑہ شریف کے انتقال پر عقیدت مندان، وابستگان، مریدین دربار غم میں مبتلا رہے اور اب بھی ہیں،ان کے عقیدت مندوں کا بڑا حلقہ ہے جو پوری دنیا میں موجود ہے اور اس درگاہ عالیہ سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد شمار نہیں کی جاسکتی، میرا روحانی تعلق بھی اسی درگاہ مقدسہ سے ہے،پاکستان اور اسلام کیلئے اس درگاہ کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں اور قادیانیت کے فتنے کا سر کچلنے کیلئے اس درگاہ کے تاجدار سیدنا پیر مہر علی شاہؓ نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں،نماز جنازہ کے بعدپیر سید عبدالحق گیلانی کو احاطہ دربار میں بڑے بھائی کے پہلو میں دفن کیا گیا، سید آل عمران کی پوٹھوہار اور پاکستان کیلئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو ہمہ وقت یاد رکھنے کیلئے سید آل عمران ویلفیئر ٹرسٹ اور سید آل عمران لائبریری کا اہتمام کیا جارہاہے جو ان کے قریبی دوستوں کی کاوشوں سے تکمیل کے مراحل میں ہیں، ان کیساتھ میرا خالص مذہبی رشتہ تھا جو آخری سانس تک قائم رہے گا ان کی تدفین کوٹ سیداں گوجرخان میں کی گئی، سائیں اسرار الحق مذہبی، روحانی گھرانے کے فرد تھے اور بابا جی کلیامی کی درگاہ پر جھاڑو کشی کرتے ہوئے انہوں نے زندگی گزاری ان کی وفات سے یقینا صاحب درد، روحانی حلقوں میں بڑی افسردگی سی چھائی ہوئی ہے ان کی تدفین احاطہ دربار کلیام شریف میں کی گئی، قاری ظہوراحمد چشتی گوجرخان کے ایک بلند پایہ خطیب تھے اور اپنی الگ شناخت اور پہچان رکھتے تھے جنہوں نے گوجرخان میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ایک ہی جگہ پر گزارا اور اس جگہ کو آباد کرنے کیلئے انہوں نے بیرون ممالک کے دورے بھی کئے ان کی رحلت سے ان کے حلقہ احباب میں انکی کمی محسوس کی جارہی ہے اور کی جاتی رہے گی ان کی تدفین وصیت کے مطابق مسجد کیساتھ ملحقہ ایک کمرے میں کی گئی اور اس کا اظہار وہ چند ماہ قبل میلاد جلوس کے دوران تقریر کرتے ہوئے وہ کر گئے تھے، عبدالرحمن مرزاکی پہچان پاکستان پیپلز پارٹی سے تھی اور پی پی کی پہچان کیلئے عبدالرحمن مرزا کا نام ایک بہت بڑی اتھارٹی سمجھا جاتا تھا، زمانہ طالب علمی سے لے کر رحلت تک پیپلز پارٹی کیساتھ وابستہ رہے، بڑی محبتیں شفقتیں، پیار محبت بانٹنے والا شخص جدا ہوا جس کا پارٹی عہدیداران و کارکنان کے علاوہ اہل گوجرخان کو بھی شدید دُکھ ہوا، وفات سے ایک ماہ قبل ہی میرے دفتر تشریف لائے تھے اور بڑی محبت سے مٹھائی منگواکر اپنے ہاتھوں سے کھلائی تھی جس کو ازرم خیام نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا تھا اور وہ یادگار کے طور پر ہمیشہ محفوظ رہے گی ان کی تدفین گھر کیساتھ ہی قبرستان میں کی گئی جہاں پر ان کے بھائی اور والدین مدفون ہیں، سابق جج ارشد ملک اپنے فیصلوں کی وجہ سے شہرت پاگئے اور پھر متنازعہ بنے اور بنتے چلے گئے، سرکاری ذرائع کے مطابق انہیں کرونا جیسے موذی وائرس نے موت کے منہ میں دھکیلا جبکہ خاندانی ذرائع کے مطابق انہیں دل کی تکلیف ہوئی جس کے باعث ان کی موت واقع ہوئی، جج ارشد ملک پر فیصلے کے بعد سے شدید دباؤ تھا ان کا آبائی علاقہ مندرہ کے قریب واقع ہے جہاں پر ان کی تدفین کی گئی۔قارئین کرام!اس سال گزشتہ سالوں کی نسبت بہت زیادہ لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے مرنے والوں کے غسل، کفن، دفن کے انتظامات کئے ہیں لیکن کیا وجوہات ہیں کہ ہم پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے؟ ہمیں اپنے سامنے انسان مرتے دکھائی دیتے ہیں مگر ہم اس امتحان کی تیاری نہیں کررہے جس نے ہرصورت ہونا ہے، اس بار کرونا کی وجہ سے تعلیمی امتحانات منسوخ کئے گئے مگر کیا وہ قبر و حشر کا امتحان منسوخ یا ملتوی ہوگا؟ وہ امتحان تو کسی بھی وباء، ایمرجنسی میں منسوخ یا ملتوی نہیں ہو گا تو پھر ہم نے اس حقیقی امتحان کیلئے کیا تیاری کی ہے؟ یہ سوال صرف پڑھنے کی حد تک بہت اچھا ہے مگر میرے سمیت اس سوال کے جواب کیلئے کسی کا بھی ذہن، دل، دماغ حاضر نہیں اور نہ ہم اس بارے میں سنجیدہ سوچ رکھتے ہیں، ہمیں سوچنا ہوگا اور عمل کی زندگی میں قدم رکھنا ہوگا تبھی ہماری دنیا و آخرت سنورے گی۔ والسلام
217