پوری دنیا سمیت پاکستان میں یوم مزدور سرکاری سطح پہ منایا جاتا ہے، سرکاری اداروں سمیت بعض نجی اداروں میں بھی چھٹی ہوتی تاہم ترقی یافتہ ممالک کی نسبت ترقی پزیر ممالک میں لیبر قانون یا تو کمزور ہیں یا ان پہ متعلقہ اداروں کی جانب سے عملدرآمد نہیں کروایا جاتا نتیجتا کسی بھی شعبے میں کام کرنے والوں کو وہ تمام سہولیات حقوق حاصل نہیں ہوپاتے جو انکا حق ہے بالخصوص پاکستان میں مزدوروں کی حقوق کے حوالے سے کام بہت کم کام ہورہا ہے
مزدوروں کی بنیادی حقوق جس میں کام کرنے کی آزادی، زبردستی اور غلام بنا کر کام کرنے کی ممانعت، یونین بنانے کی آزادی،زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کے اوقات، سرکاری چھٹیاں بمعہ تنخواہ، لائف انشورنس، حکومتی احکامات کے مطابق مقرر شدہ تنخواہ (اس وقت 37000مقرر ہے)مقرر کردہ مدت کے بعد مفت علاج کی سہولت، پنشن کی سہولت وغیرہ شامل ہیں راقم کو ملنے والی معلومات کے مطابق اس وقت ضلع راولپنڈی کی حدود میں نجی شعبے میں کام کرنیوالے ورکرز کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، کچھ عرصہ ایک ادارے میں کام کرنے کا تجربہ ہوا جس سے مزدوروں کے معاملات اور مسائل سمجھنے میں آسانی ہوئی۔ کسی بھی کمپنی، ہوٹل، فیکٹری حتی کہ سٹور وغیرہ میں بھی کام کرنے والے ورکر کو تمام لیبر رائٹس حاصل ہیں جنکو حاصل کرنے کرنے موجودہ وقت صرف وہی اکیلا تگ و دو کرسکتا ہے جبکہ لیبر رائٹس کے حقوق کے دعوے دار حکومت اور ادارے صرف خانہ پری کررہے ہیں۔
ماڈل ٹاؤن انڈسٹریل ایریا، وفاقی ضلع اسلام آباد انڈسٹریل ایریا، روات انڈسٹریل میں سینکڑوں فیکٹریوں میں ہزاروں ورکرز کام کرتے ہیں جنکو تاحال اپنے تمام تر حقوق ملنے کا انتظار ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی ذمہ داری متعلقہ حکومت پہ آتی ہے جو ہر سال ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے بری ذمہ ہوجاتی ہے۔ عملدرآمد کیلئے انتظامیہ کیپاس یا تو وقت نہیں یا ملی بھگت سے مزدوروں کا استحصال کیاجارہا ہے۔ مصدقہ ذرائع مطابق اس وقت بھی زیادہ فیکٹریوں میں 20 تا 22 ہزار تنخواہ دی جارہی ہے جبکہ کئی ظالم مالکان اب بھی اس سے کم تر تنخواہ دیکر حکومت کو چیلنج کررہے ہیں تنخواہ کے علاوہ قانون کے مطابق کام کا دورانیہ، اوور ٹائم، ای او بی آئی رجسٹریشن، PESSI رجسٹریشن نوے فیصد فیکٹریوں میں دی ہی نہیں جاتی۔ جسکا نقصان ورکر کو کئی سال بعد معلوم ہوتا ہے۔ لیبر لا صرف قانون کی کتابوں میں سو فیصد ہے باقی زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے متعلقہ انتظامیہ جس میں اسسٹنٹ کمشنر اپنے دائرہ کار میں تمام کاروباری مراکز کو لیبر قانون کے عملدرآمد کروا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں کام صفر ہے۔
اے سی کلرسیداں، اے سی کہوٹہ، اے سی رورل اسلام آباد (جو تاحال سیٹ خالی ہے) اے سی گوجر خان اپنے حدود میں مزدوروں کو حقوق دلانے میں مکمل ناکام ہیں پنجاب حکومت کی طرف سے ڈویڑن، ضلع اور تحصیل کی سطح پہ انتظامیہ کو لیبر رائٹس پہ عملدرآمد کرانے کیلئے احکامات جاری ہیں تاہم اس سلسلے میں کوئی کام نظر نہیں آرہاحکومت انتظامیہ اور ادارے تو حقوق دینے میں قاصر ہیں وہیں ورکر خود بھی ذمہ دار ہیں بنیادی حقوق نہ ملنے کیا صورت میں متعلقہ فورم موجود ہیں لیکن نوکری جانے کے ڈر اور قانون پہ عمل ہونییکی سے یہ اقدام اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری کا فائدہ مالکان اٹھاتے ہیں پنجاب حکومت اور انتظامیہ کو اب جاگ جانا چاہئیے اور لیبر کو تمام بنیادی حقوق دلوانے کیلئے زمینی حقائق کو دیکھ کر کام کرنا ہوگا تاکہ عام مزدور کا معیار زندگی بھی بلند ہو تحریر سے متعلق، مشورے اور رابطے کیلئے وٹس ایپ پہ رابطہ کیاجاسکتا ہے