88

حکومت مخالف متحدہ دھرنے/ضیاء الرحمن ضیاءؔ

چند ماہ قبل پاناما لیکس میں جب حکمرانوں کے نام آف شور کمپنیوں کے مالکان کے طور پر آئے تو ملک میں ایک شور برپا ہو گیا ،خاص طور پر جب وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادوں کا نام آیا تو تمام سیاسی پارٹیوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور وزیراعظم کے احتساب کا مطالبہ کیا اور اتنا ہی نہیں بلکہ وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ بھی کیااور بعض سیاسی رہنماؤں نے وزیراعظم سے عارضی استعفے کا مطالبہ بھی کیا کہ جب تک پاناما پیپرز کی تحقیقات نہیں ہو جاتیں وزیراعظم استعفیٰ دیں،پتا نہیں یہ مطالبہ کس قانون کے تحت کیا لیکن کیا۔ملک میں بہت ہنگاما ہوا ،ہر طرف ایکہی شور برپا ہو گیا ۔ نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیاتقریباًتمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے نام سامنے آئے مگر ہر جماعت دوسری پر الزامات لگاتی رہی اور معاملے کو خوب اچھالا گیا ۔پارلیمنٹ کے کئی اجلاس اس پر ہوئے ،وزیراعظم نے بذاتِ خود پیش ہو کر اپنی صفائی دی۔تمام ملزمان جن کے نام پاناما پیپرز میں شامل تھے وہ سب ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔پھر اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہو گیا اور وہ سب حکومت کے خلاف کھڑے ہو گئے حکومت نے عدالتی کمیشن بنانے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن اس پر راضی نہ ہوئی پھر پارلیمانی کمیشن بنایا گیااس کمیشن کے بھی کئی اجلاس ہوئے جس میں حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے ٹی او آرز پیش کیے لیکن کسی کو دوسرے کے ٹی او آرز پسند نہ آئے اور ایک دوسرے کے ٹی او آرز مسترد کر دیے اس طرح پارلیمانی کمیشن کے بھی کئی اجلاس بے نتیجہ رہے اور یہ کمیشن بھی ناکام ہو گیااور چند سیاسی جماعتوں نے حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دے دی۔
چند روز قبل ڈاکٹر طاہر القادری وطن واپس آئے تو آتے ہی انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرموں کو سزا دلوانے کے لیے دھرنے دینے شروع کر دیے اور دوسری جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی تودوسری جماعتوں کو بھی خیال آیا کہ حکومت کے خلاف دھرنا دینا چاہیے لہٰذا سب نے مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور عیدکے بعد سڑکوں پر نکلنے اور دھرنے دینے کا اعلان کر دیا اس دھرنا تحریک میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی پیش پیش ہیں۔ پیپلز پارٹی جو 2014کے دھرنوں میں جمہوریت بچانے کے لیے ان دھرنوں کے خلاف پارلیمنٹ میں بہت سر گرم تھی اب وہ بھی ان کا حصہ بن رہی ہے ۔مشیر وزیر اعلیٰ سندھ مولا بخش چانڈیو سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا اس وقت حالات اور تھے اب اور ہیں ،اب پتا نہیں وہ کن حالات کی بات کر رہے تھے حالانکہ ملکی حالات تو جوں کے توں ہیں بلکہ شاید اب اس سے بھی زیادہ خراب ہیں ۔یہ سوال کہ دھرنے کہاں دیے جائیں گے اور ان دھرنوں اور جلوسوں کی قیادت کون کرے گا ایک مستقل موضوع ہے ،جس کے لیے یہاں گنجائش نہیں ہے یہاں میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ دھرنے جہاں بھی ہوں (ہوں گے تو کسی بڑے شہر میں ہی) اور قیادت کوئی بھی کرے نتیجہ ایک ہی نکلے گا اور وہ نتیجہ صرف ملکی معیشت کو نقصان اور ملکی ترقی میں رکاوٹ کے سوا کچھ نہیں ہو گا ۔یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ نہ اس طرح کے دھرنوں سے ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں سے قصاص لیا جائے گا اور نہ ہی وزیراعظم سے استعفیٰ۔ان دھرنوں کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو گا بلکہ فائدہ ہو گا ہی نہیں ہاں نقصان ضرور ہو گا۔ اس کا مشاہدہ 2014والے دھرنوں میں سب اچھی طرح کر چکے ہیں جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے اسلام آباد میں کئی ماہ تک دھرنا دیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا نہ تو وزیراعظم نے استعفیٰ دیا اور نہ ہی کوئی اور مطالبہ تسلیم کیا گیا۔ صرف ملک کو نقصان پہنچا ،ملکی معیشت کو نقصان پہنچا،روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم ہو گئی،چینی صدر کا دورہ منسوخ ہونے سے کئی ارب ڈالر کے معاہدوں کو نقصان پہنچا۔اسلام آباد میں توڑ پھوڑ ہوئی کئی دن تک کاروبار بند رہے ،دنیا میں پاکستان کا مذاق بنا رہا۔
اور اب یہ عید کے بعد والے ممکنہ دھرنے بھی اسی سمت میں جائیں گے اور ان کا نتیجہ بھی ان 2014والے دھرنوں سے زیادہ مختلف نہیں ہو گاان دھرنوں سے نہ تو کسی کے مطالبات پورے ہوں گے اور نہ ہی کسی کا احتساب دھرنے والوں کی مرضی کے مطابق ہو گا ۔بقول ڈاکٹر شاہد مسعود اگر احتساب ہوا تو سب کا ہو گا ورنہ کسی کا نہیں ہو گااور مجھے یہ دوسرا قول زیادہ بھاری لگ رہا ہے کہ کسی کا احتساب نہیں ہو گا ۔بس ملک کی معیشت اور ترقی کو نقصان ہو گا۔ان دھرنوں سے پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبے کو بھی نقصان ہو سکتا ہے جو کہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔ان دھرنوں اور احتجاجی سیاست کی وجہ سے جمہوریت کو بھی بہت نقصان پہنچتا ہے اور یہ جمہوریت بچانے کے دعوے کرنے والے خود ہی اسے نقصان پہنچانے پر بضد ہیں۔ پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ملک میں موجودہ احتجاجی سیاست سے قبل دو مرتبہ بڑی احتجاجی سیاست ہوئی جس کے بعد جمہوریت کا خاتمہ ہوا اور مارشل لاء لگے۔صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو اور اصغر خان کی پر زور تحریک چلی لیکن اس کے نتیجے میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء لگ گیا۔دوسری بار ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اپوزیشن نے متحد ہو کر پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے ایک زور آور احتجاجی تحریک شروع کی جس سے ملک کا نظام معطل ہو گیا جس کے بعد جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔جب کبھی ملک میں احتجاجی سیاست ہوئی تو ملک کو نقصان پہنچا،سیاسی اور اقتصادی نظام تباہ ہوا،جمہوریت ختم ہوئی اور اس کی جگہ آمریت آئی ۔اب بھی ملک کے موجودہ حالت ٹھیک نہیں ہیں۔ امریکہ سے تعلقات خراب ہیں ،بھارت ملک کا امن تباہ کرنے کے لیے اپنی کوششیں کر رہا ہے،دیگر ہمسایہ ممالک سے بھی تعلقات اچھے نہیں ہیں،اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانے کی امریکا انڈیا مشترکہ کوششیں جاری ہیں ،بجلی ،گیساورپانی کا بحران ہے ،کچھ علاقوں میں سیلاب سے تباہی مچی ہوئی ہے اور مزید سیلابوں کا خطرہ بھی ہے ایسی صورتحال میں ملک اس احتجاج اور ان دھرنوں کا کیسے متحمل ہو سکتا ہے۔اس احتجاجی سیاست سے ملک کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔ لہٰذا اگر ملک کی بہتری چاہتے ہیں توجیسا کیسا بھی ملکی نظام چل رہا ہے اسے چلنے دیں کہیں اس احتجاجی سیاست کی وجہ سے نظام بالکل درہم برہم نہ ہو جائے اور کوئی بیرونی طاقت اس سے فائدہ نہ اٹھا لے۔ اس لیے دھرنا سیاست کو روک کر پارلیمنٹ کی سیاست کریں سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کریں اور باقی مسائل کے حل کے لیے عدالتوں میں جائیں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں