انعام الحق ‘ کہوٹہ
پتن کہوٹہ روڈ پر کل سورج ڈھلنے کے ساتھ ایک اور جان ڈھل گئی یہ فیضان تھافرسٹ ائیر کا اسٹوڈنٹ معصوم سے چہرے پر ہلکی مسکان لیے دل میں جانے کتنے ارمان لیے ہوئے اس کے والدین کے کیا کیا خواب ہو ں گے اس کے مستقبل کے لیے کیا کیا سوچتے رہے ہوں گے مگر حادثے کی نذر ہو گیا فیضان سارے شہر کو ویران کر گیا۔حادثے جو میرے علاقے کی سڑکوں پر معمول بن چکے ہیں ایک کا دکھ کم نہیں ہوتا اور دوسرا ہو جاتا ہے کتنے ہی گھروں کے چراغ گْل ہو چکے ہیں نہ تو یہ سانپ جیسی سڑکیں ڈسنا چھوڑتی ہیں نہ ہی ظالم ڈرائیور اپنی تیز رفتاری کم کرتے ہیں زیادہ کی ہوس انہیں اندھا کر دیتی ہے ان کی تیز رفتاری کئی جسموں کو بے جان کر چکی ہے کئی خاندانوں کو ماتمی لباس پہنا دیا ہے۔۔۔!
یہ صرف فیضان کا غم نہیں ہے یہ ہر اْس فیضان کا غم ہے جس نے اس سڑک کو استعمال کرنا ہوتا ہے سڑک تو نعمت ہے اسے کس نے زحمت بنا دیا ہے یہ منزل آشنا کرنے کے بجائے موت کی منزل کیوں بنتی جا رہی ہے خدا ان سڑکوں کو آباد رکھے کہ ان سے ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ماتم تو اس تیز رفتاری اور حرص و ہوس کا ہے جو جگر کے ٹکڑوں کو ہم سے جدا کر دیتی ہے اس تیز رفتاری نے ہمارا بہت کچھ چھین لیا ہے ہمارا احساس! ہمارا سکون ! ہمارے پیارے! کاش! ہم اتنے بے ضمیر نہ ہوتے! کاش ہم اتنے خود غرض اور لالچی نہ ہوتے کاش ہم کاش ! ہم اتنے بے حسن نہ ہوتے ایک کے بعد ایک ان ہوس زدوں کے منہ کا نوالا بن رہا ہے اور ہم خاموش ہیں زبان تک نہیں کھولتے قلم تک نہیں چلاتے کہیں ہم مر تو نہیں چکے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری اس بے حسی نے ان سڑکوں کو خونی بنا دیا ہے !!!
فیضان فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا جس کا تعلق بڑوھی آزاد پتن سے تھا ۔ کالج میں اس کا پہلا سال تھا ابھی تو زندگی نے انگڑائی لی تھی ابھی تو جذبوں میں ارتعاش پیدا ہوا تھا ابھی تو اس نے منزل کا تعین کیا تھا ابھی تو غنچہ چٹکا تھا ابھی تو پوری طرح وہ اپنی لطافت کی داد بھی نہیں پا سکا تھا۔!
فطرت بھی کتنی سفاک ہے اس پھول کو نوچتی ہے جو خاص ہوتا ہے اس نے کالج کے داخلہ امتحان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس کی میڈم بتا رہی تھیں کہ اس نے کمپیوٹر میں 75 میں سے 73 نمبر لیے ہیں میری آنکھیں چھلک پڑیں میرا دل کٹ گیا فیضان معصوم سلم سمارٹ ذہین وبصورت انتہائی شریف النفس کاش! خدایا ایسا نہ ہوا ہوتا ۔!!!
ابھی تو اس نے کالج کی زندگی کا لطف اٹھانا تھا اس نے مری کے ٹرپ پر جانا تھا اس نے مشاعروں اور تقریبات میں شرکت کرنی تھی اب جب کلاس لگے گی تو اس کی سیٹ روئے گی اس کے دوست روئیں گے اس کے اساتذہ آہیں بھرئیں گے اگر کالج کی دیواریں بول سکتی تو انکی بھی سسکیاں سنائی دیتیں ۔میرے کانوں میں اسکی آواز گونجتی ہے ، انعام بھائی !آپ کہوٹہ کے لیے بہت اچھا کام کر رہے ہیں بہت سے لوگ مجھے یہی کہتے ہیں مگر ان میں سے جو ایک آواز کم ہو ئی گئی ہے اور یہ آواز میرے اندر کہیں پیوست ہو کر رہ گئی ہے اور مجھے اندر ہی اندر شکستہ کیے جا رہی ہے کاش! وہ اتنی جلدی نہ جاتا۔
ابھی تو زندگی ساری پڑی تھی
تجھے اتنی بھی کیا جلدی پڑی تھی
108