{jcomments on}چوہدری محمد امیر
ماؤزے تنگ جو جدید چین کا بانی ہے اپنی زندگی میں قوم کو وصّیت کرگیا تھاکہ میری برسی کے سوگ میں اپنے کارخانے اور کاروباری مراکز بند نہ کرنابلکہ میری برسی پر دو گھنٹے زیادہ کام کر کے سوگ منانا۔آج بھی چینی لوگ ماؤزے تنگ
کی برسی پر دو گھنٹے اضافی مفت کام کرتے ہیں اسی لیے آج چینی دُنیا میں محنتی قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دُنیا میں بہت سے ممالک جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ گردانتے ہیں وہ بھی مختلف شعبہ ہائے جات میں چین سے خدمات حاصل کرتے ہیں۔ چین نے زندگی کے ہر شعبہ میں بے پناہ ترقی کی ہے یہی وجہ ہے آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو چائنہ پراڈکٹس کثرت سے ملیں گی۔چینیوں نے محنت کر کے دنیا میں اپنی اعلٰی مثال قائم کی ہے
دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیمااور ناگا ساکی پر امریکی ایٹمی جارحیت اور تباہ کن نتائج کے بعد بھی اِتنی تیز رفتاری سے ترقی کرنا اورجاپان کو اتنا جلد ایک عظیم ملک بنانا شاید جاپانیوں کے علاوہ ایسا کرنا کسی اور کے بس کی بات نہیں۔لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اتنی بدترین شکست اور امریکی غلامی کے بعد جاپان اتنی جلدترقی کیسے کر گیا؟یہ وہ سوال ہے جو ہر ایک کے زہن میں بار بار آتا ہے لیکن اس سوال کے جواب میں جاپانیوں کی زندگی کے ہرشعبے کامطالعہ ناگزیر ہے اور شاید یہ کسی ایک تحریر نہیں بلکہ ایک مکمل کتاب میں بیان کیا جا سکے۔مختصریہ کہ جاپانی بہت زیادہ محنتی ،مخلص،ایماندار اور محب وطن ہیں۔یہ قوم نہ تو کبھی جھوٹ بولتی ہے اور نہ ہی اِن میں کرپشن کا کوئی تصور موجودہے ۔اِس سے بڑی اور مثال کیا پیش کی جائے کہ جاپان کا اعلٰی ترین افسر بھی جب اپنی ڈیوٹی پر جاتا ہے تو خود ہی اپنے آفس کی صفائی کرتا ہے ٹیبل ،کرسی وغیرہ کی صفائی بھی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے یہاں تک کہ اس کی حتی الامکان یہی کوشش ہو تی ہے کہ چائے بھی خود بنائے اور چائے کے برتن بھی خود ہی صاف کرے۔ساری دنیا جاپان کی ترقی اور معیار کی تعریف کرنے پر مجبور ہے ۔ جاپان جدید دور کا ترقی یافتہ اور ایک عظیم ملک بن چکا ہے۔
ہماری مثال بھی پوری دنیا میں نہیں ملتی کیونکہ ہم بڑے بڑے جلسے کرنے اور دھرنے دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ ہمارے دعوے بھی عجیب وغریب ہوتے ہیں کہ ہم جلسے یا دھرنے میں پانچ لاکھ یا دس لاکھ لوگوں کو لائیں گے او ر ایک لاکھ موٹر سائیکل ہو گا۔ اسی طرح دو لاکھ عورتیں اور بچے ہوں گے اور ہم مخالف جماعت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔میرے ہم وطنو انقلاب یا آزادی اس طرح حاصل نہیں ہوتی اس مقصد کے حصول کے لیے ہم سب کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے ہوں گے ہر ایک کو دیکھنا ہو گا کہ وہ اس ملک کے آئین و قانون کی کتنی پاسداری کرتا ہے کیا جس عہدہ پر وہ فائض ہے اس کے مطابق کام بھی کر رہا ہے یا نہیں؟ کیا ہم میں بجلی چوری کرنے کی عادت نہیں ہے؟ کیا ہم بجلی کا بِل دیتے ہیں؟ کیا ہم سود نہیں کھاتے؟ کیا ہم ہر طرح کا ٹیکس جو حکومتِ وقت عائد کرتی ہے وہ ادا کرتے ہیں؟ کیا ہم جھوٹ نہیں بولتے ؟کیا ہم اپنا کام خلوص اور ایمانداری سے کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہیں ؟ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تعلق پاکستان کے ہر شہری سے ہے جب ہم ہر لحاظ سے اپنے فرائض کی ادائیگی کا مظاہرہ کریں گے تب ہم اپنی حکومت یا کسی ادارے کی غفلت یا کرپشن وغیرہ کے خلاف بغاوت کرسکتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کے طورطریقے بھی نرالے ہیں الیکشن سے پہلے انتخابی مہم کے دوران جلسے جلوسوں اور اشتہارات پر لاکھوں کروڑوں خرچ کر ڈالتے ہیں اور طرح طرح کے وعدے کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آتے ہی ان کے تیور بدل جاتے ہیں۔ پہلے توانتخابی مہم کے دوران کیے گئے بے جا اخراجات کی واپسی یقینی بناتے ہیں اور بعدمیں اپنی پراپرٹیاں بڑھانے کے لیے کرپشن کرتے ہیں اورٹیکس بھی ادا نہیں کرتے۔ہمارے لیڈروں کی طرزِزندگی بھی شہانہ ہے بڑے بڑے محلوں اور بنگلوں میں رہتے ہیں ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں اور کئی نوکر بھی ہوتے ہیں ۔ عجیب لیڈر ہیں جو ملک سے زیادہ اپنی سیاسی پارٹی کی فکر میں رہتے ہیں۔تھانے کچہریوں پر اِن کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے اپنی سیکیورٹی پر ریاست کے بے شمار سپاہیوں کو معمور کرتے ہیں۔ ملکی خزانے کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کرعوام کو ہی بھول جاتے ہیں ان کی محفلیں اور دعوتیں بھی اعلٰی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ جن مقاصدکی خاطر عوام نے اُنہیں اقتدار کی منزل تک پہنچایا اُن مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کریں۔عوام کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنائیں اور صحت وتعلیم کی بنیادی سہولیات پاکستان کے تمام شہریوں کو میسرفرمائیں۔پاکستان کی عوام کو بھی چاہیے کہ ووٹ کا صحیح استعمال کریں تاکہ دھرنوں اور ہڑتالوں کی نوبت نہ آئے۔