زاہد شفیق قریشی نمائندہ پنڈی پوسٹ
دنیامیں سیاست کے میدان میں جو تحریکیں یا جماعتیں نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آتی ہیں اور اپنی نظریاتی اساس پر قائم رہتے ہو ئے اپنے اپنے منشور کو ملکی نظام کا حصہ بناتی ہیں وہ تادیر قائم رہتی ہیں عوام نہ صرف انکو پذیرائی بخشتے ہیں بلکہ انکے راہنماؤں پر اندھا اعتماد بھی کرتے ہیں وطنِ عزیز میں نظریاتی سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے شہرہ آفاق منشور سے کیا جس میں عام آدمی کو محور و مرکز بنایا گیا اور یوں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میںآیا جس نے ملکی سیاست میں ایک عجیب رنگ پیدا کردیا جا گیر دار سرمایہ دار بے بس ہو کر رہ گئے عوام کو اپنے حقو ق کے متعلق شعور اور آگاہی ملی جس کی بدولت عام آدمی بڑے بڑے سورماؤں سے ٹکر لیتا دکھائی دیا مگر یہ نظریہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا جن لوگوں اور اداروں کے خلاف بھٹو نے پارٹی بنائی وہ جوق در جوق عازمِ بھٹو بھٹو ہو گئے بھٹو کی پھانسی کے بعد وہی سرمایہ دار اور جا گیر دار اپنی اصل آماجگاہ مارشل لا ء ایڈمنسٹریڑ کی گود میں گوشہ عافیت ڈھونڈنے لگے ضیاء مارشل لا ء عوام اور بھٹو کے عشاق کو تو ڑنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ بھٹو کی پارٹی بھرپور نظریاتی پارٹی بن گئی جس کی قیادت بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید نے بھر پور انداز میں کی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی مصلحت کا شکار ہو کر اپنا گراف بر قرار نہ رکھ سکی اسکا کارکن مایوس ہو کر گھر بیٹھ گیا مگر اس کے باوجود کارکن کے دل سے بھٹو نہ نکلا بلاول بھٹو کے قیادت سنبھالنے کے بعد کارکنوں کو ایک نیا جوش ولولہ اور حوصلہ ملا کہ شاید اب ماضی کی گئی نا انصافیوں کا ازالہ ہو سکے اور کارکن کو اس کی وابستگی اور اسکے اخلاص کے مطابق مقام ملے گا بلاول بھٹو پر اتنی بڑی پارٹی کا بوجھ اٹھا نا اتنا آسان نہ تھا پھر پارٹی کو نئی جہتوں کے مطابق دوبارہ منظم کر نا نہایت مشکل کام تھا جس کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت تھی پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کر کے شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب کی آرگنائزنگ کمیٹیاں بنائی گئیں جنہوں کی تنظیم سازی کر کے پارٹی چئرمین کا کام آسان کرنا تھا س مقصد کے لئے شمالی پنجاب کی آرگنائزنگ کمیٹی میں پوٹھوہار کے پہلے وزیر اعظم جو اس منصب پر پہنچنے والے عام پاکستانی تھے جن کے پیچھے کوئی بڑا جاگیردار نہ سرمایہ دار نہ پس منظر نہ تھا کو آرگنائزنگ کمیٹی کا چئیرمین بنایا اور پنجاب کے سب سے اہم ڈویژن راولپنڈی کی صدارت ایک ایسے شخص کے حوالے کی گئی جو2000کے الیکشن میں ق لیگ کا ناظم منتخب ہوا غلام مرتضٰے ستی2008میں حادثاتی طور پر ایم این اے بن گیا بعد ازاں ضلع راولپنڈی کا صدر بنادیا گیا جس نے کبھی بھی ورکرز سے رابطہ نہ رکھا مایوس کن کارکرگی کے باوجود غیر نظریاتی شخص کو ڈویژنل صدربنانا غلط فیصلہ ثابت ہوا جس کا انتخاب پیپلز پارٹی کی سُبکی کا باعث بنا اس کی جگہ اگر کسی نظریاتی جیا لے کو اگر یہ عہدہ دیا جاتا تو پارٹی نہ صرف مضبوط ہو تی بلکہ کارکن بھی متحرک ہو کر محنت سے کام کر تے ‘پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل گوجرخان جو کہ راجہ پرویز اشرف سابق وزیر اعظم کی تحصیل ہے جہاں پیپلز پارٹی کو مضبوط اور نا قابل تسخیر ہونا چاہیے تھا یہاں بھی کارکن کش پالیسی کے تحت پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور مخلص گھرانوں کو یکسر نظر انداز کر کے مبینہ اکثر سوشل میڈیا پر متحرک گرو پ کو ہی نمائندگی دی گئی وہ خاندان جو نصف صد ی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں جنہوں نے ہر گر م سرد دور میں پارٹی اور راجہ پرویز اشرف سے اپنا تعلق ختم نہ کیا انکو نظر انداز کر نا یقیناًپارٹی قیادت کے لئے سوالیہ نشان ہے پارٹی کا جی حضوری گروپ شاید اتنا مضبوط ہے کہ مخلص کارکن قائدین تک رسائی ہی نہیں رکھتے پیپلزپارٹی کے مخلص اور نظریاتی خاندان جن کو تحصیل بھر کے جیالے اور نظریاتی کارکن قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایسے خاندانوں کو حالیہ تحصیل کی تنظیم سازی میں یکسر نظر انداز کر دیا گیا اوربعض ایسے لوگوں کو عہدے دیئے گئے جو پولنگ جیت تو درکنار پولنگ ایجنٹ بیٹھنے کی بھی قوت نہیں رکھتے تحصیل گوجرخان میں پیپلز پارٹی کی پہچان رکھنے والا ایک خاندان سید نور حسین شاہ کا بھی ہے جس نے ہر دور ہر حال میں نہ صرف پاکستان بلکہ یو کے میں بھی سادات فیملی نے پارٹی پرچم بلند رکھا کو حالیہ تنظیم میں نمائندگی نہ دینا یقیناًپارٹی زوال کی نشاندہی کرتا ہے پی پی فورکی قد آور سیاسی شخصیت سید شیر حسین شاہ جن کے برادر اکبر بانی راہنما پاکستان پیپلز پارٹی سید نور حسین شاہ مرحوم کا سیاسی دیو مالائی کردار پوٹھوار کی تاریخ کا حصہ بن چکا ھے ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کا نام احترام سے لیتے ہیں ان کے بھائی بھتیجے بھی پارٹی کی بہتری کے لئے مسلسل کوشاں رہے خصوصا برطانیہ کی ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت اسلامک سینٹر بلیک برن برطانیہ کے صدر سید شفاعت حسین شاہ،پیپلز یوتھ برطانیہ کے راہنما سید شجر عباس شاہ اور پاکستان میں سید شبر عباس شاہ ایڈوکیٹ اور سماجی حوالوں سے منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ اسی طرح ممتاز سیاسی شخصیات راجہ ضمیر ایڈووکیٹ (مرحوم) کے صاحبزادے راجہ محمد علی،راجہ زاہد
خورشید، بھنگالی شریف کے مرزا برادران بھاٹہ کے زمانہ طالبعلمی سے پارٹی سے وابستہ ماسٹر طاہر ، ماسٹر سعید ، سید جلیل شاہ کوٹ سیداں کے سادات چوہدری اورنگزیب پیپلز پارٹی کے اکلوتے چئیرمین ابرار رشید ،امجد جاویدبھٹی ،سابق طالبعلم راہنما مرزا عبدالرحمن ، راجہ حمید سلیم، مقصودقریشی، پہاپا پرویز کیانی آف ساہنگ مشکل حالات میں پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے گوجرخان شہر سے امیدواران بالخصوص متحرک سیاسی ورکر سٹی کونسلر راجہ افتخار وزیر جن کا دفتر پارٹی آفس کا کام کرتا ہے کو مصلحتاََ نظر انداز کیا گیا خواجہ امیر زمان کونسلر چوہدری عامر خورشید ،راجہ خاور اقبال آف صندل،راجہ روئیداد آف مندرہ ،بے شمار سیاسی گھرانے جو اپنا ایک سیاسی وجود رکھتے ہیں کو نہ صرف دور کیا گیا بلکہ کسی قسم کی مشاورت کے قابل بھی نہ سمجھا گیا اس تمام صورتحال کا راجہ پرویز اشرف کو ادراک کرنا چاہیے راجہ پرویز اشرف کے تحصیل گوجرخان کے لئے انجام دیئے گئے کارنا مے اربو ں روپے کے فنڈ اور بنیادی عوامی سہولتوں کی فراہمی رائیگاں نہ چلی جا ئے کیونکہ تنظیمیں اگر مضبوط مخلص اور نظریاتی لوگوں پر منصبی ہو نگی تو فائدہ پارٹی کو ہوگا
زاہد شفیق قریشی نمائندہ پنڈی پوسٹ
دنیامیں سیاست کے میدان میں جو تحریکیں یا جماعتیں نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آتی ہیں اور اپنی نظریاتی اساس پر قائم رہتے ہو ئے اپنے اپنے منشور کو ملکی نظام کا حصہ بناتی ہیں وہ تادیر قائم رہتی ہیں عوام نہ صرف انکو پذیرائی بخشتے ہیں بلکہ انکے راہنماؤں پر اندھا اعتماد بھی کرتے ہیں وطنِ عزیز میں نظریاتی سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے شہرہ آفاق منشور سے کیا جس میں عام آدمی کو محور و مرکز بنایا گیا اور یوں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میںآیا جس نے ملکی سیاست میں ایک عجیب رنگ پیدا کردیا جا گیر دار سرمایہ دار بے بس ہو کر رہ گئے عوام کو اپنے حقو ق کے متعلق شعور اور آگاہی ملی جس کی بدولت عام آدمی بڑے بڑے سورماؤں سے ٹکر لیتا دکھائی دیا مگر یہ نظریہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا جن لوگوں اور اداروں کے خلاف بھٹو نے پارٹی بنائی وہ جوق در جوق عازمِ بھٹو بھٹو ہو گئے بھٹو کی پھانسی کے بعد وہی سرمایہ دار اور جا گیر دار اپنی اصل آماجگاہ مارشل لا ء ایڈمنسٹریڑ کی گود میں گوشہ عافیت ڈھونڈنے لگے ضیاء مارشل لا ء عوام اور بھٹو کے عشاق کو تو ڑنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ بھٹو کی پارٹی بھرپور نظریاتی پارٹی بن گئی جس کی قیادت بیگم بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید نے بھر پور انداز میں کی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی مصلحت کا شکار ہو کر اپنا گراف بر قرار نہ رکھ سکی اسکا کارکن مایوس ہو کر گھر بیٹھ گیا مگر اس کے باوجود کارکن کے دل سے بھٹو نہ نکلا بلاول بھٹو کے قیادت سنبھالنے کے بعد کارکنوں کو ایک نیا جوش ولولہ اور حوصلہ ملا کہ شاید اب ماضی کی گئی نا انصافیوں کا ازالہ ہو سکے اور کارکن کو اس کی وابستگی اور اسکے اخلاص کے مطابق مقام ملے گا بلاول بھٹو پر اتنی بڑی پارٹی کا بوجھ اٹھا نا اتنا آسان نہ تھا پھر پارٹی کو نئی جہتوں کے مطابق دوبارہ منظم کر نا نہایت مشکل کام تھا جس کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت تھی پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کر کے شمالی پنجاب اور جنوبی پنجاب کی آرگنائزنگ کمیٹیاں بنائی گئیں جنہوں کی تنظیم سازی کر کے پارٹی چئرمین کا کام آسان کرنا تھا س مقصد کے لئے شمالی پنجاب کی آرگنائزنگ کمیٹی میں پوٹھوہار کے پہلے وزیر اعظم جو اس منصب پر پہنچنے والے عام پاکستانی تھے جن کے پیچھے کوئی بڑا جاگیردار نہ سرمایہ دار نہ پس منظر نہ تھا کو آرگنائزنگ کمیٹی کا چئیرمین بنایا اور پنجاب کے سب سے اہم ڈویژن راولپنڈی کی صدارت ایک ایسے شخص کے حوالے کی گئی جو2000کے الیکشن میں ق لیگ کا ناظم منتخب ہوا غلام مرتضٰے ستی2008میں حادثاتی طور پر ایم این اے بن گیا بعد ازاں ضلع راولپنڈی کا صدر بنادیا گیا جس نے کبھی بھی ورکرز سے رابطہ نہ رکھا مایوس کن کارکرگی کے باوجود غیر نظریاتی شخص کو ڈویژنل صدربنانا غلط فیصلہ ثابت ہوا جس کا انتخاب پیپلز پارٹی کی سُبکی کا باعث بنا اس کی جگہ اگر کسی نظریاتی جیا لے کو اگر یہ عہدہ دیا جاتا تو پارٹی نہ صرف مضبوط ہو تی بلکہ کارکن بھی متحرک ہو کر محنت سے کام کر تے ‘پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل گوجرخان جو کہ راجہ پرویز اشرف سابق وزیر اعظم کی تحصیل ہے جہاں پیپلز پارٹی کو مضبوط اور نا قابل تسخیر ہونا چاہیے تھا یہاں بھی کارکن کش پالیسی کے تحت پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور مخلص گھرانوں کو یکسر نظر انداز کر کے مبینہ اکثر سوشل میڈیا پر متحرک گرو پ کو ہی نمائندگی دی گئی وہ خاندان جو نصف صد ی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں جنہوں نے ہر گر م سرد دور میں پارٹی اور راجہ پرویز اشرف سے اپنا تعلق ختم نہ کیا انکو نظر انداز کر نا یقیناًپارٹی قیادت کے لئے سوالیہ نشان ہے پارٹی کا جی حضوری گروپ شاید اتنا مضبوط ہے کہ مخلص کارکن قائدین تک رسائی ہی نہیں رکھتے پیپلزپارٹی کے مخلص اور نظریاتی خاندان جن کو تحصیل بھر کے جیالے اور نظریاتی کارکن قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایسے خاندانوں کو حالیہ تحصیل کی تنظیم سازی میں یکسر نظر انداز کر دیا گیا اوربعض ایسے لوگوں کو عہدے دیئے گئے جو پولنگ جیت تو درکنار پولنگ ایجنٹ بیٹھنے کی بھی قوت نہیں رکھتے تحصیل گوجرخان میں پیپلز پارٹی کی پہچان رکھنے والا ایک خاندان سید نور حسین شاہ کا بھی ہے جس نے ہر دور ہر حال میں نہ صرف پاکستان بلکہ یو کے میں بھی سادات فیملی نے پارٹی پرچم بلند رکھا کو حالیہ تنظیم میں نمائندگی نہ دینا یقیناًپارٹی زوال کی نشاندہی کرتا ہے پی پی فورکی قد آور سیاسی شخصیت سید شیر حسین شاہ جن کے برادر اکبر بانی راہنما پاکستان پیپلز پارٹی سید نور حسین شاہ مرحوم کا سیاسی دیو مالائی کردار پوٹھوار کی تاریخ کا حصہ بن چکا ھے ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کا نام احترام سے لیتے ہیں ان کے بھائی بھتیجے بھی پارٹی کی بہتری کے لئے مسلسل کوشاں رہے خصوصا برطانیہ کی ممتاز سیاسی و سماجی شخصیت اسلامک سینٹر بلیک برن برطانیہ کے صدر سید شفاعت حسین شاہ،پیپلز یوتھ برطانیہ کے راہنما سید شجر عباس شاہ اور پاکستان میں سید شبر عباس شاہ ایڈوکیٹ اور سماجی حوالوں سے منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ اسی طرح ممتاز سیاسی شخصیات راجہ ضمیر ایڈووکیٹ (مرحوم) کے صاحبزادے راجہ محمد علی،راجہ زاہد خورشید، بھنگالی شریف کے مرزا برادران بھاٹہ کے زمانہ طالبعلمی سے پارٹی سے وابستہ ماسٹر طاہر ، ماسٹر سعید ، سید جلیل شاہ کوٹ سیداں کے سادات چوہدری اورنگزیب پیپلز پارٹی کے اکلوتے چئیرمین ابرار رشید ،امجد جاویدبھٹی ،سابق طالبعلم راہنما مرزا عبدالرحمن ، راجہ حمید سلیم، مقصودقریشی، پہاپا پرویز کیانی آف ساہنگ مشکل حالات میں پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے گوجرخان شہر سے امیدواران بالخصوص متحرک سیاسی ورکر سٹی کونسلر راجہ افتخار وزیر جن کا دفتر پارٹی آفس کا کام کرتا ہے کو مصلحتاََ نظر انداز کیا گیا خواجہ امیر زمان کونسلر چوہدری عامر خورشید ،راجہ خاور اقبال آف صندل،راجہ روئیداد آف مندرہ ،بے شمار سیاسی گھرانے جو اپنا ایک سیاسی وجود رکھتے ہیں کو نہ صرف دور کیا گیا بلکہ کسی قسم کی مشاورت کے قابل بھی نہ سمجھا گیا اس تمام صورتحال کا راجہ پرویز اشرف کو ادراک کرنا چاہیے راجہ پرویز اشرف کے تحصیل گوجرخان کے لئے انجام دیئے گئے کارنا مے اربو ں روپے کے فنڈ اور بنیادی عوامی سہولتوں کی فراہمی رائیگاں نہ چلی جا ئے کیونکہ تنظیمیں اگر مضبوط مخلص اور نظریاتی لوگوں پر منصبی ہو نگی تو فائدہ پارٹی کو ہوگاa
125