118

تجاوزات کیخلاف آپریشن‘ سست روی کا شکار

پنجاب میں تجاوزات کے خلاف آپریشن ایک بار پھر خبروں میں ہے، مگر اس بار وجہ اس کی برق رفتاری نہیں، بلکہ سست روی اور غیر یقینی صورتِ حال ہے۔ کچھ ماہ قبل حکومت نے بڑے زور و شور سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے مہم شروع کی تھی۔

سڑکوں، فٹ پاتھوں، سرکاری زمینوں اور پارکوں پر قابض ناجائز تعمیرات گرائی جا رہی تھیں، اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حکومت اس معاملے میں کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھے گی۔ مگر اب یہ جوش و خروش مدھم پڑتا نظر آ رہا ہے، اور وہی پرانی کہانی دہرائی جا رہی ہے جو پاکستان میں ہر بڑے آپریشن کے بعد لکھی جاتی ہے شروعات بھرپور، مگر انجام دھند میں گم!

جب یہ آپریشن شروع ہوا تو عوام میں ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا۔ ایک طرف لوگ سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کو سراہ رہے تھے، تو دوسری طرف متاثرین، خاص طور پر وہ لوگ جو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کر رہے تھے،

اپنی روزی روٹی ختم ہونے پر احتجاج کرتے دکھائی دیے۔ حکومت نے بھی واضح کیا کہ صرف بڑے مگرمچھوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور غریبوں کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی۔ مگر زمینی حقائق ہمیشہ سرکاری بیانات سے مختلف ہوتے ہیں۔ کئی مقامات پر چھوٹے دکان داروں کی دکانیں گرا دی گئیں، جبکہ بعض بااثر افراد کی عمارتیں بدستور قائم رہیں۔

اب جبکہ یہ آپریشن آہستہ پڑ چکا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ سب سے بڑی وجہ تو سیاسی دباؤ ہے۔ کئی علاقوں میں تجاوزات کرنے والوں کا براہ راست تعلق سیاسی شخصیات سے ہے، اور جیسے ہی آپریشن نے ان تک پہنچنے کی کوشش کی، مزاحمت شروع ہوگئی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ کارروائی کی شدت کم کر دی گئی۔ دوسرا مسئلہ انتظامی مشکلات کا ہے۔ تجاوزات صرف ایک دن میں نہیں بنتیں، بلکہ یہ برسوں کا کھیل ہے۔ جب ان کے خاتمے کی کوشش کی جاتی ہے تو قانونی پیچیدگیاں بھی سامنے آتی ہیں، اور بعض معاملات عدالتوں میں جا پہنچتے ہیں، جہاں فیصلوں میں تاخیر ایک عام بات ہے۔

عوامی ردعمل بھی اس آپریشن کی سست روی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ حکومت نے شاید یہ اندازہ نہیں لگایا تھا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کا سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہوگا۔

جب ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے اور ان کے متبادل روزگار کے لیے کچھ نہ کیا گیا، تو احتجاج بڑھنے لگا، جس نے انتظامیہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

اس کے علاوہ، بڑے تجارتی مراکز اور رہائشی منصوبے، جو غیر قانونی زمین پر قائم کیے گئے، اب بھی قائم ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرات شاید کسی کو نہیں ہوئی۔ لہٰذا، جب غریب ریڑھی والوں اور چھوٹے دکان داروں کے حق میں آوازیں بلند ہوئیں، تو حکومت نے خود کو دفاعی پوزیشن میں پایا اور آپریشن کی شدت کم کر دی۔

تجاوزات کا مسئلہ کسی ایک حکومت یا ایک آپریشن سے حل نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک مستقل پالیسی اور غیر جانبدارانہ عمل کا متقاضی ہے۔ اگر واقعی حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو اسے چند بنیادی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے، قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ اگر چھوٹے دکان داروں پر سختی کی جا رہی ہے، تو بڑے شاپنگ مالز، شادی ہالز اور رہائشی منصوبوں پر بھی وہی قانون لاگو ہونا چاہیے۔

دوسرا، اگر حکومت ناجائز تجاوزات ختم کر رہی ہے، تو ان لوگوں کو متبادل روزگار کے مواقع بھی فراہم کرے، تاکہ بے روزگاری اور غربت مزید نہ بڑھے۔

تیسرا، انتظامیہ کو آزادی دی جائے کہ وہ کسی بھی قسم کے دباؤ کے بغیر کارروائی کرے۔ اگر حکومتی عہدیدار ہی مصلحتوں کا شکار ہو جائیں گے، تو ایسے آپریشن ہمیشہ نامکمل رہیں گے۔

چوتھا، ایک شفاف پالیسی مرتب کی جائے کہ تجاوزات کیسے روکی جائیں گی اور جو نئی تعمیرات ہو رہی ہیں، ان کے قوانین کی سختی سے نگرانی کی جائے تاکہ مستقبل میں دوبارہ ایسے آپریشن کی ضرورت نہ پڑے۔یہ آپریشن بھی شاید انہی درجنوں اقدامات کی طرح رہ جائے گا، جو بڑے دعووں کے ساتھ شروع ہوئے، مگر انجام گمنامی میں ہوا۔ تجاوزات کا مکمل خاتمہ ایک خواب ضرور ہے،

مگر اسے حقیقت بنانے کے لیے مسلسل محنت، غیر جانبداری، اور سیاسی دباؤ سے آزاد پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت واقعی تجاوزات کے خلاف سنجیدہ ہے، تو اسے اپنی موجودہ حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی، ورنہ یہ معاملہ بھی فائلوں میں دب کر رہ جائے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں