اللہ کریم نے حضرت انسان کو جب اس فانی دنیا میں جنت سے زمین پر اتارا تو اس کی ضروریات زندگی کا سامان بھی فراہم کیا۔انسان نے خوراک اور رہائش کے مختلف طریقے اپنانا شروع کیے ۔ جوں جوں انسانی تہذیب نے ترقی حاصل کی انسان کی ضروریات حیات میں صرف اضافہ ہی نہ ہوا بلکہ اس نے روزمرہ زندگی میں بہتر سے بہتر خوراک اور رہائش کے مختلف طریقے بھی ایجاد کرلیے۔اسی کو عرف عام میں روزگار کہا جاتا ہے۔ کو لی بھی شخص دنیا میں کہیں بھی آباد ہو، روزمرہ کی ضروریات کے لیے اسے روزگار کی ضرورت ہے۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں روزگار کے دو انتہالی مقبول ذریعے کاروبار یا بزنس اور نوکری یا جاب ہیں۔دنیا میں تہذیب، رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر جب جغرافیائی حد بندیوں سے مختلف ممالک اور حکومتیں وجود میں آیں تو ان ممالک کے افراد کی صلاحییتوں سے ملکی ترقی کے لیے استفادہ کے عوض انہیں روزگار زندگی فراہم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری بنا۔گزشتہ چند صدیوں میں دولت حاصل کرنے کی دوڑ میں مختلف اقوام اور ممالک میں مختلف معاشی ماڈل ترتیب دیے گئے۔دنیا کے معدنی ذخایر پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے کرہ ارضی پر کئ مرتبہ خونریز جنگوں میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بنا دیے گئے۔سودی معیشت کے فروغ کے لیے بنکنگ سسٹم کی بدولت طاقتور اقوام نے کمزور اقوام کی معاش کو دونوں ہاتھوں سے لوٹااور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔پیپر کرنسی نے رییل ویلتھ کے بجاے فیک نوٹس پر کاروبار اور تجارت کو فروغ دیا۔باٹر سسٹم کا خاتمہ ہوا اور ان تمام اقدامات کا مقصد سودی معیشت کا فروغ تھا۔ سودی معاش کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ امیر ، امیر تر اور غریب ،غریب تر ہوتا چلا گیا۔ آج دنیا کی بڑی بڑی طاقتور ریاستیں اس جنجال میں پھنس کر اپنے سرمایہ، کاروبار، معیشت، سیاست، دفاع اور نظام حکومت کے معاملے میں صرف چند بڑی حکومتوں کی غلامی کا طوق پہنے ہوے ہیں۔ایسی صورتحال میں کسی بھی ملک کا معاشی نظام غیر اقوام کے ہاتھ چلا جاتا ہے۔ معیشت پر کنٹرول نہ ہونے کی بدولت حکومت کے لیے عوام کی ضروریات کے مطابق جاب اپارچونیٹیز اور بزنس انوایرمنٹ پیدا کرنا نا ممکن ہو جا تا ہے۔ پاکستان میں دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح ایسی ہی صورتحال ہے۔چنانچہ بڑھتی ہول60ی بے روزگاری کا پہلا اور سب سے اہم سبب بیرونی مداخلت اور سودی معیشت ہے۔پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے سبب جہاں ملکی دفاعی اخراجات میں بے شمار اضافہ ہوا ہے وہیں فارن انویسٹمنٹ میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں واپس ہو چلیں جس کے باعث ہزاروں افراد کو جاب سے ہاتھ دھونا پڑا۔چنانچہ پاکستان میں بے روزگاری کا دوسرا بڑا سبب دہشت گردی کے واقعات ہیں۔جن کی وجہ سے بزنس گروتھ میں بھی شدید کمی واقع ہوئی ہے اور یوں روزگار کے مواقع ختم ہوتے چلے گئے۔ 2001سے 2007کے دوران سب سے زیادہ زرمبادلہ مواصلات اور آئی ٹی کے شعبے میں اس وقت حاصل ہوا جب سیل فون کمپنیاں پاکستان میں انویسٹمنٹ کر رہی تھیں ، ہزاروں لوگوں کو بہترین روزگار کے مواقع ملے مگر یہ سلسلہ صرف چند برس تک جاری رہ سکاعصر رواں میں نوجوانوں کی تعداد دیگر ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے اور نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم کا رجحان بھی قابل ستالش ہے مگر المیہ یہ ہے کہ جس تناسب سے ہر چھ ماہ بعد نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں اس تناسب سے روزگار کے مواقع میسر نہیں اور نہ ہی گزشتہ ایک دہائی سے کسی حکومت نے اس امر کو قابل توجہ سمجھا ،نتیجتاً ہر گزرتے سال بے روزگار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایسے نوجوان جو اپنی محنت، قابلیت ، ہنر اور صلاحیت کے باوجود جب روزگار حاصل نہیں کر پاتے تو شدید ذہنی دباو اور ڈپریشن کا شکارہوکر خود کشی کو اپنا آخری حل تصور کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دس لاکھ افراد بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں خودکشی کی سب سے بڑی وجہ بھی بے روزگاری اور غربت ہے۔پاکستان میں کیری60ر کونسلنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ زیادہ تر طلبا ء یا تو اپنے والدین کے خواہش کے مطابق مضامین کا انتخاب کرتے ہیں یا پھر اپنی خواہش سے مگردونوں صورتوں میں مارکیٹ کی صورتحال کو نہیں دیکھا جاتا ، یوں ایک ہی شعبہ کے ہزاروں فارغ التحصیل طلباء روزگار حاصل کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں، کیوں کہ ان شعبہ جات میں روزگار کے مواقع نسبتاً کم ہوتے ہیں۔چنانچہ پاکستان میں بے روزگاری کا یہ تیسرا بڑا سبب ہے۔گورنمنٹ سیکٹر میں رشوت ستانی کا رواج اور میرٹ نہ ہونے کی بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہے، نتیجتاً پڑھے لکھے اور قابل افراد روزگار کے حصول سے دانستہ محروم کردیے جاتے ہیں۔جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے تو اس میں بھی دیانت اور امانت کا معیار برقرار نہیں رہا۔ گورنمنٹ کے کنٹریکٹس ، کنٹریکٹ اور بڈنگ منیجرز کی جیب بھرنے والوں کو ہی سونپے جاتے ہیں ۔ یہاں کوالٹی اور معیار کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔چنانچہ اسی خوف کے باعث اکثر نوجوان پاکستان میں انٹر پرینیورشپ اختیار نہیں کرتے۔ مہنگائی ، بڑھتی ہوئی غربت اور معاشی تنگدستی کا اگر بروقت تدارک روزگار کے مواقع بڑھانے کی صورت میں نہ ہو ا تو پاکستان کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔{jcomments on}
133