جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی 157

بیول میں افغانیوں کیخلاف آپریشن شروع نہ ہوسکا

یہاں جو بولتا ہے اس کی زبا ن کاٹ لی جاتی ہے میں بولا تو میری بھی زبان کاٹ لی جائے گی لیکن میں احساس رکھتا ہوں احساس رکھتا ہوں اپنی دھرتی کا احساس رکھتا ہوں

اپنے وطن کا احساس ہے مجھے اپنے لوگوں کا میں سوچتا ہوں کہ کیا ہم اپنی دھرتی سے مخلص ہیں ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچنا ہے کہ ہم باقی اقوام سے پیچھے کیوں ہیں ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہماری خاموشی نے وطن عزیز کو تباہی کے کنارے پہنچا دیا ہے ہم ہر مسلے کو دوسرے کا۔

مسلہ سمجھ کر خاموش رہتے ہیں کیا یہ خوف کی زندگی نہیں اور کیا ہمارے حواس میں اختلال نہیں آگیا یہ خوف ہم نے خود فراہم کیا ہے۔ ہمارے ایمان کمزور ہوچکے ہیں ہم ہوس لالچ میں مبتلا ہیں ہم اللہ پر توکل نہیں رکھتے ملک سے وفاداری کا فقدان ہے ہمارا وطن ہر لحاظ سے سونے کی کان ہے یہاں ہر موسم اور ہر معدنیات ہے

ہماری زمینوں کے نیچے میٹھے پانی کا سمندر موجود ہے لیکن ہم پھر بھی بے بس لاچار ہیں اور ہمارے وسائل پر دوسرے لوگ قابض ہیں۔اس وقت ہم اپنی صفوں چھپے دشمنوں سے برسرپیکار ہیں تو ہم ہر امکانی کمزوری کا سدباب کیوں نہیں کرتے وطن عزیز اسوقت چاروں طرف سے اندرونی اور بیرونی دشمنوں میں گرا ہوا ہے۔

بھارت اور افغانستان اور ملک میں موجود ان کے ایجنٹ ملکی وحدت کو پاراپارا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔افغانستان کی جانب سے پاکستان پر حملہ آور ہونے والے ٹی ٹی پی کےدہشت گردوں کو افغان حکومت کی بھر پور سپورٹ ہمارے سامنے ہے

جبکہ پاکستان کے اندر مہاجرین کی صورت موجود افغان ان کے لیے سہولت کاری کرتے ہیں تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہی افغانی ماضی بعید میں اسلام کے نام پر ہم پر حملہ آور ہوتے رہے۔ہمارا مال واسباب لوٹ لے جاتے رہے جو لوگ ان افغانیوں کو اسلام کا سپاہی قرار دیتے رہے

وہ ہمیں متحدہ بھارت میں ان اسلام۔پسندوں کی اس علاقے میں اسلام۔کی ترویج کا کوئی ثبوت نہیں دے سکے۔ہر سال اناج اترنے پر نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے نعرے لگاتا احمد شاہ ابدالی یہاں ہندوؤں مسلمانوں کو بلا تفریق لوٹتا رہا۔افغانستان نے
پاکستان کو تسیلم۔کرنے سے انکار کیا اسی افغانستان نے اقوام متحدہ کی نشست کے لیے پاکستان کی مخالفت کی۔لیکن ہم ہیں کہ ہمیں اسلام کی تعلیمات یاد آجاتی ہیں

ضیاالحق مرحوم کی مہربانیوں سے یہ نسل پرست افغانی گزشتہ چالیس سال سے ہماری معیشت کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔خطہ پوٹھوہار میں بھی یہ احسان فراموش لوگ سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں جن میں سے کافی بڑی تعداد ہمارے مقامی لوگوں کی مہربانیوں سے یہاں زمینیں جائدادیں بنا چکے ہیں پاکستانی شناختی کارڈ ہولڈر بن چکے ہیں۔

اس کے باوجود یہ لوگ منشیات فروشی۔چوری چکاری۔ڈاکا زنی و راہزنی کے باعث ہمارے لیے مسلسل خطرہ بنے رہے۔کسی مقامی شخص سے کسی ایک افغانی کا تصادم ہوتو یہ اکٹھے ہو کر مقامی شخص پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔پاکستان میں رہتے ہیں

پاکستان کا کھاتے ہیں لیکن پاکستان سے ہی نفرت کرتے ہیں بھارت اور افغانستان کو پاکستان پر ترجع دیتے ہیں اور یہ وہ چھپ چھپا کر نہیں ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔لیکن ہمارے لوگ ذاتی مفادات کے لیے یا ان کے خوف سے ان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔حکومت کی جانب سے تمام افغانیوں کو پاکستان سے نکل جانے کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی

جو ختم ہوچکی ہے جس کے بعد اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ان کے خلاف کاروائیوں کا آغاز ہوچکا ہے لیکن گوجر خان پولیس باوجہ اب تک کسی آپریشن کے موڈ میں دیکھائی نہیں دے رہی۔

بیول اور گرد ونواح میں مقیم افغانی بدستور اپنے کاروبار میں مصروف ہیں۔یہاں کے کرمنل مائنڈ مقامی افراد نے ان کو کرایے کے غنڈوں کا درجہ دے رکھا ہے

ایسے ہی لوگ ان کے سپورٹر ہیں جو نہیں چاہتے کہ یہ نمک حرامی کر ے والے یہاں سے نکالے جائیں۔یہ سوچے بغیر کہ یہ لوگ اس دھرتی کا کھا کر اس کے وفادار نہ بن سکے تو وہ ان مقامی افراد کے کے خیرخواہ کیسے ہوسکتے ہیں۔

ہم اگر سنجیدگی سوچیں تو ہمیں صاف دیکھائی دیتا کہ ان افغانیوں کے آنے کے بعد پوٹھوہار کا پرامن علاقہ جرائم کا گڑھ بنا ضرورت اس امر کی ہے۔

کہ مقامی لوگ مقامی صحافی ان کی نشاندھی کرتے ہوئے پولیس پر پریشر ڈالیں تاکہ ان لوگوں کے خلاف آپریشن شروع ہوسکے۔یہ لوگ نہ کل پاکستان کے خیرخواہ تھے نہ اخ خیرخواہ ہیں اور نہ مستقبل میں ان سے کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں