ضیاء الرحمن ضیاءؔ
29نومبر1947کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا ناپاک منصوبہ منظور کیااور 14مئی1948 کو ڈیوڈبن گوریان جو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بنے انہوں نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کا اعلان کیا اس کے پیچھے آج کے منافق امریکہ اور یورپ کا پورا ہاتھ تھا انہوں نے یہودیوں کی پوری سرپرستی کی ، برطانیہ نے فلسطین میں صیہونی ریاست قائم کرنے پر زور دیا اس ریاست کا نقشہ بنایا گیا جس میں دریائے نیل سے فرات تک کا علاقہ شامل تھا اس میں کئی مسلم ریاستیں آتی تھیں ۔ پھر اس کام کا آغاز کیا گیا اور پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر آباد کرنا شروع کر دیا 1897میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزارتھی اور مسلمانوں کی تعداد اس وقت پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی ، اس کے بعد یورپ سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچنے لگے اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا 1914میں یہودیوں کی تعداد فلسطین میں چالیس ہزار ہو گئی۔ برطانیہ نے فلسطین کے معاملہ میں ہر موقع پر عیاری و مکاری سے کام لیا 1917،میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتہ شلڈ نامی صیہونی لیڈر کو لکھے گئے ایک خط میں فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر 1918میں انگریزوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیااس کے بعد بہت بڑی تعداد میںیہودی یورپ سے فلسطین آئے جس کے باعث ان کی تعداد67000 تک پہنچ گئی ۔1922میں فلسطین میں 667500 مسلمان اور 82500 یہودی آباد تھے جو کل آبادی کا تقریباًبارہ فیصد بنتے ہیں اس کے بعد برطانیہ کی سرپرستی میں تقریباً تین لاکھ سے زائدمزید یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے جس کی وجہ سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ پھر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کی ابتدا یہودیوں نے کی تھی ، برطانیہ کے رائل کمیشن نے 1937 میں یہ تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جائے۔ فلسطینیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا اس پر برطانیہ نے فوج منگوا کر اس احتجاج کو سختی سے کچل دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے سپرد کر دیا، تب تک فلسطین میں یہودیوں کی تعداد ایک تہائی ہو چکی تھی۔ اقوام متحدہ نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ جتنے علاقے پر یہودیوں کی ملکیت ہے اس پر یہودیوں کی سلطنت بنا دی جائے، فلسطینیوں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تو یہودیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے۔ برطانیہ 15مئی 1948کو اپنے فوجی اور سفارتی عملے کو لے کر فلسطین سے نکل گیا اور دہشت گرد یہودیوں کو بھاری تعداد میں اسلحہ دے کرمعصوم فلسطینیوں پر درندوں کی طرح چھوڑ دیاجنہوں نے فلسطینیوں پر بے انتہا ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے ، انہوں نے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے اور اپنی ناجائز سلطنت کو وسعت دینے کے لیے تشدد کی راہ اپنائی اور اپنی تشدد آمیز پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مظالم میں شدت پیدا کی جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہزاروں کی تعداد میں گرفتار بھی کیے گئے۔ان قیدیوں پر بھی یہودیوں نے ظلم کے نئے اور رونگٹے کھڑے کر دینے والے طریقے آزمائے جن کے نتیجے میں کئی قیدی چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے اور بہت سوں کی موت ہو گئی ۔ اسرائیل نے گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطینیوں پر اتنے مظالم ڈھائے کہ سن کر دل کانپ اٹھتا ہے ،ان مظالم کو دیکھ کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے جن میں سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے ادارے بھی ہیں ان مظالم کو روک نہیں پائے اور روکیں بھی کیوں اقوام متحدہ تو بنی ہی یہود و ہنود اور عیسائیوں کے تحفظ کے لیے ہے مسلمانوں کو تو انہوں نے بیوقوف بنا کر اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے ۔ اب امریکہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کی ٹھان رکھی ہے اورتل ابیب سے اپنے ناپاک سفارت خانے کو پاک بیت المقدس میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے جو کہ مسلم دشمنی کی واضح مثال ہے حالانکہ بیت المقدس پر صرف مسلمانوں کا حق ہے اور اسرائیل ناجائزقبضہ جمانے کے بعد اسے وسعت دے رہا ہے اور یہ تمام کام امریکہ اور اس کے حواریوں کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے اور ہو رہا ہے، بیت المقدس جو کہ مسلمانوں کا قبلہٗ اول کہلاتا ہے اس پر اسرائیلی قبضہ کی وجہ سے پہلے ہی مسلمانوں کے دل زخمی ہیں اب اس طرح کے اقدامات اٹھانا ان زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ، امریکہ کو اس بات کا بخوبی علم ہے اور وہ اس طرح کے اقدامات سے صرف مسلمانوں کی دل آزاری چاہتا ہے۔ سرور کائناتﷺ نے 1400سال پہلے فرما دیا تھا کہ ’’اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃٌ‘‘ کہ سارا عالم کفر ایک ہی ملت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ یورپ کی یورپ اسرائیل کی وہ بھارت کی حمایت میں مصروف ہیں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی مدد صرف مسلم دشمنی کی وجہ سے کرتے ہیں ورنہ جس قدر اسرائیل نے پوری دنیا کو نقصان پہنچایا اس کو دیکھتے ہوئے تو امریکہ کو اس کی امداد بالکل بند کردینی چاہیے تھی مگر اس نے ان کی امداد میں اضافہ کر دیا تا کہ اور بھی مسلمانوں کا خون بہائیں ۔اب ضرورت مسلمانوں کے آپس کے اتحاد کی ہے تاکہ مل جل کر عالم کفر کا مقابلہ کیا جا سکے اور کفریہ طاقتوں کی مسلمانوں پر ہونے والی یلغاروں کو روکا جا سکے تمام مسلم ممالک کے سربراہان کو آپس میں رابطے میں رہنا چاہیے تا کہ کفار کی ہر سازش پر نظر رکھی جا سکے اور ان کی ہر سازش کو بے نقاب کر کے اس کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔
132