164

بیت المقدس سے رشتہ کیا

جس طرح اس روئے زمین پر انسانوں کی تاریخ قدیم ہے اسی طرح اللہ کے گھروں کی بھی تاریخ قدیم ہے۔ پھرایک سرزمین ایسی بھی ہے جسے سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام کہاجاتاہے اسی سرزمین انبیاء کرام علیہم السلام پربیت المقدس ا پنے جاہ وجلال،شان وشوکت،عزت واحترام، کے ساتھ قائم ہے

اس بیت المقدس کی اپنی بھرپور سیاسی سماجی، اسلامی، قدیمی، اور جغرافیائی،تاریخ ہے القدس مسلمانوں،مسیحی اور یہودیت تینوں کے ہاں مقدس شہرتصورکہاجاتاہے۔

یہاں مسجد اقصیٰ اورگنبد صخرہ واقع ہے مسجد اقصیٰ کی بنیاد مکہ مکرمہ کے چالیس سال بعد رکھی گئی اس کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی طرف منسوب ہے اس کی تعمیر حضرت سام بن نوح علیہ السلام نے کی عرصہ دراز کے بعدحضرت سیدناداؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر اس جگہ پرکی جہاں حضرت سیّدنا موسی علیہ السلام کاخیمہ نصب تھاابھی اس کے تعمیری مراحل جاری تھے

کہ سیدناداؤد علیہ السلام کی وفات کاوقت قریب آگیاتوآپ نے اپنے فرزند حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کواس کی تکمیل کی وصیت فرمائی چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنات کے ذریعہ سے اس کی تکمیل فرمائی بیت المقدس مسلمانوں کا17ماہ تک قبلہ بھی رہا۔

ہجرت کے بعدنبی کریم روف الرحیم ﷺمسجد اقصیٰ کی جانب رخ انورکرکہ نمازکی ادائیگی فرماتے رہے مسلمانوں کے ہاں مسجدالحرام،مسجدنبوی اور مسجد اقصی تینوں مقدس ترین مقامات ہیں۔ یہ مسجد اقصیٰ وہی ہے جس پر قابض دہشت گرد اسرائیلی فوج ظلم وستم جبر وتشدد کے ذریعہ سے بزورقوت غنڈہ گردی کے ذریعہ سے قابض ہے

یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ نبی کریم روف الرحیمﷺ نے سفر معراج میں یہاں انبیاء کرام علیہم السلام کوامامت بھی کروائی، جس کاذکر پندرہویں پارہ میں موجود ہے۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی جن تین مساجد کی طرف سفرکرنے کوباعث ثواب کہاگیا ہے ان میں یہ مسجد بھی شامل ہے نبی کریم روف الرحیمﷺ کی بعثت کے وقت یہاں سلطنت روم کاقبضہ تھا جب نبی کریم روف الرحیمﷺ کو بیت المقدس کی آزادی کی خوشخبری سنائی گئی

تو آپﷺ نے خوشی کااظہارکیااوراسے علامت قیامت قرار دیا دور فاروق اعظمؓ میں حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ نے 61ھ میں یہودونصاری سے آزادکرایا 66ھ سے86ھ تک اموی خلیفہ عبدالملک نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ عباسی دور تک تویہ مسلمانوں کے قبضہ میں رہابعدمیں آپس کے اختلاف اورخانہ جنگی کی وجہ سے اس کی گرفت مسلمانوں کے ہاتھوں کمزور ہوگئی۔

صلیبیوں نے70ہزارمسلمانوں کو شہید کرتے ہوئے492ہجری کودوبارہ قبضہ کرلیاجب نصاریٰ کو یہاں قبضہ ملاتوانہوں نے یہاں ردوبدل کی عمارات تعمیر کی یہاں رہنے کیلئے کمرے، گودام اورگرجاگرکی بھی تعمیر کی۔پھرسلطان صلاح الدین ایوبی رح کادورآیاسلطان ایوبی نے بیت المقدس کی آزادی کیلئے16جنگیں لڑی بلآخر 538ہجری صلیبیوں کے چنگل سے بیت المقدس کوآزادی دلائی۔

مسجدسے غیرضروری تعمیرات خاص طور پر صلیب کے نشانات کو مٹا کربیت المقدس کوپاک وصاف کیاپھرپہلی جنگ آزادی میں 1917 عیسوی کوانگریزنے اس خطہ پرقبضہ کرتے ہوئے یہودیت کوعام آبادہونے کی اجازت اورکھلی چھوٹ دی یہود ونصاری کے دن رات پروپیگنڈا نے جلتی پرتیل چھڑکایوں 1947ء کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کودوحصوں میں تقسیم وتسلیم کیا۔

ٹھیک ایک سال کے بعد14مئی 1948 یورپ کی کوشش، اور سازش سے یہاں جبری جعلی زبردستی صہیونی ریاست کاقیام عمل میں لایا گیا جس کے بعدسے آج تک یہاں بسنے والے مسلمانوں پر ان کی اپنی ہی زمین تنگ کردی گئی ان مسلمانوں پر یہاں کے یہودیوں نے جبروتشدد،ظلم وستم کی ایک سیاہ بدترین تاریخ رقم کی۔

مسلمانوں کو مسجد اقصی میں نمازپڑھتے گولیوں سے چھلنی کردیاگیادودھ پیتے بچوں کوبھی شہید کر دیا گیا یہاں کی خواتین پربھوکے کتے چھوڑے گئے نوجوانوں کوعوقبت خانے کی زینت بنا کران پرتاریخ انسانیت کے بدترین مظالم ڈھائے گئے۔ یہاں کے مسلمانوں کوگھروں سمیت بارود سے اڑا دیا گیا ہسپتال میں زیر علاج مسلمانوں کودوران علاج عمارت سمیت دھماکے میں اڑا دیا گیا سکول پڑھتے بچوں کوسکول میں ہی شہید کر دیا گیا۔

مساجد میں نمازپڑھتے لوگوں کو عبادت کی حالت میں خون میں نہلادیاگیاوہاں مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا لیکن یہاں کے غیور نہتے مظلوم مسلمان اپنی اس سرزمین سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار ناہوئے ناکسی دباؤ میں آئے ناکسی لالچ میں آئے انہوں نے جان مال اولاد خاندان کنبہ قبیلہ حتی کہ اپنا سب کچھ لٹاکربھی کسی قسم کی کوئی سودے بازی ناکی۔

ان کاسب کچھ ختم کر دیا گیا لیکن نایہ قوم جھکی نابکی انہوں نے پوری امت مسلمہ سے یہ امید لگائی تھی کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ایک قوم ہیں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

ان مظلوموں کی امت مسلمہ کی طرف سے ہمدردی کی جائے گی انکی مددکی جائے گی ان پرہونے والے ظلم کا بدلہ لیا جائے گا ان کے قیام طعام علاج معالجہ کااہتمام کیاجائے

لیکن پوری امت مسلمہ ہرطرح کی قوت وطاقت سے لیس ہونے کے باوجودان کی مدد تودرکناران پرہونے والے مظالم پربھی خاموش تماشائی کا کردار اداء کررہی ہے عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں توگویاگونگی بہری اوراندھی ہیں جانوروں پر ہونے والے ظلم توان کونظرآتے ہیں لیکن فلسطین کی سرزمین پر انسانی اعضاء فضاء میں بلند ہوتے ان کو نظرنہیں آرہے۔

اکتوبر 2023 سے لیکرآج تک 64 ہزارسے زائدشہادتیں ہوچکی ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے ان سب پر خاموشی نا توہمیں چین سے جینے دے گی اورناہی تاریخ ہمیں معاف کرے گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں