233

بچے

عبدالجبار چوہدری/بچے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کیونکہ انسان پر اس کی صحبت کا اثر سب سے زیادہ ہو تا ہے اور بڑوں کی صحبت میں بچے کا طویل عرصہ گزرتا ہے بچے بڑوں کی دوستیاں بھی نبھاتے ہیں اور دشمنیاں بھی پالتے ہیں وہ بچے بہت ہی قسمت والے ہوتے ہیں جن کوورثہ میں دشمنیاں نہیں ملتیں بلکہ محبتیں خوشگوار تعلقات اور بہترین امن والا ماحول ملتا ہے بچوں پر بے شک پابندیاں لگائیں مگر پھر بھی وہ بڑوں کے اختیار کیے گئے کاموں کو ہی آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے بڑوں کو اپنے طرز عمل پر غور کرنے اور اپنی کوتاہیوں کو ٹھیک کرنا چاہیے تاکہ ان کے غلط کاموں کے نتائج بچوں کو نہ بھگتنا پڑیں۔کچھ عرصہ قبل تک بچوں کو بڑوں کے فیصلوں پر اعتراض کی جرات نہیں تھی بڑوں کی گفتگو میں بچے بیٹھ نہیں سکتے تھے بڑوں کے انداز کو اختیار کرنانقالی کرنا‘ مذاق میں ٹالنا‘ جواب دینا بہت ہی بڑی گستاخی بلکہ قابل سزا عمل ٹھہرتا تھا اب وقت نے ایسی انگڑائی لی ہے کہ بڑے تماشائی بن چکے ہیں اور بچے کھلاڑی‘بچوں کے جائز،ناجائز ہر کام کی تقلین بڑوں پر لازم ہو چکی ہے بچے غلطی کریں‘ نقصان کریں‘ کچھ بھی کر بیٹھیں بڑوں کا کام ان کا دفاع کرنا رہ گیا ہے بچے بڑوں کے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے اب بچوں کی مرضی پر بڑوں کو چلنا پڑتا ہے بچوں کو کنٹرول میں رکھنا‘ سمیٹنا‘ ان کے جذبات کو یک دم روک دینا‘ ان کی بات کو بیک جنبش قلم رد کر دینا اب ممکن نہیں رہا‘مشاورت بھی بچوں کے موڈ‘ مرضی کے خلاف نہیں کی جاسکتی البتہ بچے بڑوں کے وسائل دولت،ورثہ،جائیداد کا استعمال حق سمجھ کر کرتے ہیں اور احسان مندی اور شکر گزاری کا اظہار بھی نہیں کرتے۔طبعی عمروں کا کم ہونا اور بڑوں کا جلدی اس جہان فانی سے کوچ کر جانا بچوں پر امتحان ہوتا ہے کم عمری میں بوجھ اٹھانا وسائل پیدا کرنا ورثہ میں چھوڑے کاموں کو اچھی طرح پایہ تکمیل تک پہنچانا بلاشبہ مشکل کام ہوتا ہے بعض اوقات ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی کوشش بچوں کے لیے بھی امتحان ہوتا ہے اورا س خاندان،معاشرہ کے لیے بھی بڑا صبر آزما کام ہوتا ہے پہلے اس کو (Genration Gap)کہا جاتا تھا اب اس کو حق کی جنگ اور ظلم و زیادتی پر احتجاج کیا جارہا ہے اب بحث و مباحثہ کی بھی ضرورت نہیں رہی ہے کیونکہ اس مطالبے کے ساتھ دینے یا نہ دینے والوں میں شمار ہونا ہے اب بات درمیان کی رہی نہیں بلکہ ادھر اور ادھر کی آچکی ہے یہ بدقسمتی ہے یا بد نصیبی کہ بین الاقوامی ضرورتوں،چیلنجز کو ہم مدنظر رکھ کر یہ نہیں کر رہے بلکہ ہم اپنی سرحدوں کے اندر کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ جنگ شروع کیے ہوئے ہیں بچوں اور بڑوں کی لڑائی میں فیصلہ کون کرے گا اس کا ابھی انتظار ہے بچے اب کھلونوں سے بہلنے والے نہیں بڑوں کو تدبیر فراست اور حکمت سے ان کو مطمئن کر نے کی ضرورت ہے بڑوں کے لیے آزمائش کا وقت ہے اب ان کی جان خلاصی بچوں کو بھگانے،دو ر رکھنے میں نہیں بلکہ ان سے مل بیٹھ کر اقدامات کرنے میں ہے بچے کو اب دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا یاد رہے کہ اب ہمارے ملک میں اگلا احتجاج نہ تاجر کرے گا نہ کسان،نہ سیاسی کارکن کرے گا اور نہ ہی مذہبی طبقہ بلکہ احتجاج آب بچے کریں گے کیونکہ ان کو مستقبل میں اندھیرا نظر آرہا ہے ان کو فائدہ پہنچانے،ان کا کیرئیر بنانے ان کو باعزت زندگی گزارنے کا ہر طریقہ تباہ و برباد کیا جارہا ہے اور سوائے بے روزگاری،ناکامی کے ان کو کچھ نظر نہیں آرہا ہے تعلیم یافتہ اور ان پڑھ،عقلمند اور بے وقوف ان سب سے ماورا ہو کر بچے صرف اپنی جنگ لڑنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں اس کا احساس ان کے شور کو دبایا نہیں جا سکتا ان کے اضطراب کو بیماری قرار نہیں دیا جاسکتا ان کے مطالبے کو ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا جاسکتا بچے تو بچے ہیں ان کو صرف اور صرف مطمئن کیا جا سکتا ہے میرٹ،موقع،باعزت روزگار تعلیم سستی اور رہائش کی سہولیات دیں تاکہ یہ بچے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں امیر و غریب کے فرق کو ختم کر کے افسراور مزدور کے امتیاز کو دفن کر کے ہی ان بچوں کو مطمئن کیا جا سکتا ہے ذہانت کو غریب کے پاس ہونے کو جرم نہ بنایا بکہ اس سے استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کیا ملکی و قومی عہدوں پر امیروں کا پہنچنا ہی ضروری ہے یا ہر طبقہ زندگی سے قابل،ذہین لوگوں کا مروجہ نظام کی بہتری کی ضرورت کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اب بین الاقوامی ضرورتیں ہمیں آگے بڑھنے کی دعوت دے رہی ہیں عالمی درجہ کی مہارتیں حاصل کرنے کے لیے باصلاحیت بچوں کی ضرورت ہے مگر اس کے لیے بہت بڑی آبادی کو نظر انداز کرنا ہر گز عقلمندی نہیں ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں