188

بلدیاتی امیدوار پارٹی ٹکٹ کنفرم نہ ہونے کی وجہ پریشان/عبدالخطیب چوہدری

چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان کے بیان’’ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بلا خوف وخطر کرائیں گے‘‘ کے بعد بلدیاتی امیدواروں کی امیدوں میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی کہ حکومت اب بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے موڈ میں ہے چونکہ تین ماہ قبل الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں

بلدیاتی انتخابات کروانے کیلئے ضلع کو 79یونین کونسلوں میں تقسیم کرکے انتخابی شیڈول کا اعلان کرکے کاغذات نامزدگی کے بعد انتخابی نشان بھی الاٹ کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کینسل کردیئے اس طرح پنجاب میں دوسال قبل بھی امیدواروں سے وفاق جیسا سلوک ہوا کاغذات نامزدگی اور طویل انتخابی مہم کے اخراجات کے بعد اچانک سے ملتوی ہونے کی وجہ سے امیدواروں کی کمر ٹوٹ گئی جس کی وجہ سے عوام اور امیدواروں میں بے چینی پھیلی اور اس سے حکومت کی سازش قرار دیا

کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے کے حق میں نہیں ہے لیکن چند ماہ قبل خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کی رضا مندی کے بعد الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کروائے تو پنجاب حکومت پر عوامی دباؤ بڑھنے کی بناء پر مسلم لیگ ن نے سپریم کورٹ کے حکم پر لبیک کرتے ہوئے انتخابات کروانے کیلئے رضا مندی ظاہر کی لیکن اس کے انعقادکے وقت کا تعین ایک مسلہ بن رہا کبھی سیلاب اور محرم الحرم کا جواز بناکر مذید وقت کا تضاضا کیا جاتا رہااور بعد ازاں پنجاب میں تین مرحلوں میں انتخابات کا انعقاد کروائے جانے کا اعلان کیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی امیدوار بے یقینی کی صورت حال سے دوچار رہے اب چونکہ پنجاب میں چکوال اور جہلم سمیت دیگر اضلاع میں 31اکتوبر کو الیکشن کا انعقاد ہونے جارہا ہے اسلام آباد میں بھی شیڈول کا الیکشن کردیا گیا

جس کے مطابق 30نومبر کو پولنگ ہوگی ضلع راولپنڈی کی سولہ یونین کونسلوں کی حلقہ بندیوں کا تنازعہ سامنے آنے پر ہائی کورٹ کی جانب سے 2005ء کی حلقہ بندیوں کے تحت الیکشن کروانے کے بعد امیدوار ایک مرتبہ پھر تذبذب کا شکار ہوگئے تھے جب ہائی کورٹ کا حکم آیا تو اس دوران راولپنڈی میں کاغذات نامزدگی کا عمل جاری تھا جس کی بناء پر امیدوار پریشانی کا شکار تھے کہ ایک طرف ہائی کورٹ نے نئی حلقہ بندیوں کو ختم کرکے پرانی حلقہ بندیوں کے تحت الیکشن کروانے کا حکم دیا ہوا ہے

جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی کے جمع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اس صورتحال میں متعدد یونین کونسلوں سے امیدوار کاغذات نامزدگی نہ کرواسکے کہ ممکن ہے کہ جن یونین کونسلوں میں حلقہ بندیاں تبدیل ہوئی وہاں دوبارہ شیڈول دیا جائے راولپنڈی کی یونین کونسل غزن آباد کے 2 وارڈ وں سے اس صورتحال کے پیش نظر دو امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے اسطرح مجموعی طور صرف تحصیل کلرسیداں سے بارہ امیدواربلامقابلہ منتخب ہوئے لیکن پھر بھی بعد ازاں الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق حلقہ بندیوں کی بجائے صرف وہاں الیکشن تعطل کا شکار ہوئے

یہاں نئی کونسلوں کی تشکیلی کی وجہ سے حلقہ بندیاں متنازعہ ہوئی ہیں اس وقت الیکشن کے انعقاد میں ایک ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے سات نومبرکو انتخابی نشان بھی الاٹ ہونے ہیں لیکن وفاقی وزیر داخلہ کے حلقہ انتخاب میں امیدواروں کی سب سے زیادہ مسلم لیگ ن سے ہے دوسرے نمبر پر آزاد جبکہ تیسرے پوزیشن میں تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کی ہے

تحریک انصاف پیپلزپارٹی نے اپنے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ کے حوالے سے کنفرم کردیا ہے لیکن مسلم لیگ ن کی جانب سے تاحال ٹکٹ کنفر م نہیں ہوئے ہیں چوہدری نثار علی خان کے معاون خصوصی شیخ ساجد الرحمان کے مطابق وہ اپنے حلقہ انتخاب این اے باون میں پارٹی ٹکٹوں کا اعلان اور فیصلہ خود کرینگے لیکن امیدوار ان حلقہ میں انتخابی مہم کے حوالے سے اس نہج پر جا چکے ہیں

کہ ان کا مسلم لیگ نے کا ٹکٹ نہ ملنے پر انتخابی دوڑ سے دستبر دار ہونا مشکل ہوگیا ہے ہر یونین کونسل میں تین سے چار پینل جوکہ حقیقی طور پر مسلم لیگ ن سے وابستگی رکھتے ہیں وہ ٹکٹ کے لیے امیدوار ہیں مسلم لیگ کی قیادت کیلئے صرف ایک کا انتخاب کرنا اور دوسروں کی ناراضگی مول لیناایک بڑا چیلنج بن گیا ہے اور امیدواروں میں بھی ٹکٹ کے دوڑ کیلئے آپس کی سرد جنگ بھی مسقتبل میں مسلم لیگ ن کیلئے نقصان دے ثابت ہوسکتی ہے

جو ورکر مسلم لیگ کے حقیقی مخلص ہیں ان کیلئے بھی انتخابی مہم چلانا بھی مشکل ہوگیا ہے کہ ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے پارٹی فیصلے کے مطابق ان کا الیکشن میں حصہ لینا مشکل ہوجائیگا

وفاقی وزیر داخلہ کو چاہیے کہ وہ ملکی معاملات میں سے اپنے حلقہ کے لیگی کارکنوں اور امیدواروں کے لیے کچھ وقت نکال کران کے ٹکٹ کا فیصلہ کریں تاکہ مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار اپنی انتخابی مہم کو بہترین طریقے سے چلا سکیں اگر اس میں مذید تاخیر کی گئی تو دوسری جماعتیں فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں آسکتی ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں