250

بائیکاٹ یا منافقت

دنیا ایک دار الامتحان ہے۔ زندگی کو حق و باطل، خیر و شر، ظلم انصاف کی پگ ڈنڈی سے تقویٰ کی چادر اوڑھ کر عبور کرنا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے۔


ہم اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مکلف ضرور ہیں مگر بائیکاٹ کے نتائج کے نہیں۔ اسرائیل اور امریکہ کی مصنوعات کا بائیکاٹ کسی حد تک تو ٹھیک تھا مگر جب ان کی مصنوعات بنانے والی فیکٹریاں اور ان کی آؤٹلیٹس کو زور بازو بند کر انا توڑ پھوڑ کرنا اور ان میں موجود لوگوں کو اور ملازمین کو تشدد کا شکار بنانا کسی اسلام کی تعلیمات میں سے نہیں ہے،

الّا یہ کہ حکومت وقت اور علماء کرام یا مفتیانِ دین اس قسم کا فتویٰ صادر نہ کر دیں۔
یہاں کچھ لوگ اسی تبلیغ میں لگے ہیں کہ جو اس کا بائیکاٹ نہیں کرے وہ مسلمانوں کے دشمن کا ساتھ دے رہا ہے۔ دین کا ادنیٰ طالبِ علم کی حیثیت سے یہ سمجھ سکتا ہوں کہ یہ ہر کسی کا انفرادی عمل ہے اور وہ جہاں سے بہتر اور اچھی چیز ملے وہ وہاں سے خرید سکتا ہے ۔


ہمیں حق کا داعی بن کر ضرور جینا ہے مگر ہم کسی کو مجبور نہیں کر سکتے، کیونکہ سورہ بقرہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا (لا اکراہ فی الدین) یعنی دین میں جبر نہیں ہے۔

اسکے باوجود اگر بائیکاٹ کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے الیگزینڈر فلیمنگ کی 1928 میں ایجاد کردہ پینسلین ( فرسٹ اینٹی بائیوٹک) کا بائیکاٹ کرتے ہیں جس نے یہ میڈیسن ایجاد کی اور اسے تمام انسانیت کے لیے وقف کر دی۔ اس سے پوچھا گیا کہ یہ اینٹی بائیوٹک پیٹنٹ کیوں نہیں کراتے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس اینٹی بائوٹک میڈیسن کو مذہب اور قومیت سے بالا تر ہو کر پوری انسانیت کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں۔(گو کہ اب اینٹی بائوٹکس میں کئی جنریشنز آ چکی ہیں۔) ریسرچ کے مطابق اگر یہ دوا دریافت نہ ہوتی یا اسے پیٹنٹ کرا لیا جاتا تو موجودہ انسانوں میں سے 75 فیصد لوگ سسک سسک کر مر چکے ہوتے۔ آئیں کریں بائیکاٹ؟.

امریکن الیگزینڈر گرام بیل کی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرتے ہیں جس نے 1876 میں ٹیلی فون ایجاد کیا اور اس دنیا میں کمیونیکیشن اور پیغام رسانی کے مشکل ترین مسئلے کو بہت آسان اور موثر کر دیا۔

چلیں موبائل کا بائیکاٹ کرتے ہیں جسےایک امریکن مارٹن کوپر نے 1972 میں ایجاد کیا اور کمیونیکیشن کو مزید آسان اور جدید کر دیا۔

کیلیفورنیا کی کمپنی اینڈرائیڈ کارپوریشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں جس نے رچ مائنر، نک سیئر، کرس وائٹ اور اینڈی روبن نے 2003 میں اینڈرائڈ ایجاد کیا اور دنیا کو نئی اور جدید تیکنیک سے ہم آہنگ کرایا۔

بائیکاٹ کرنا ہے تو امریکن مارک زکر برگ جس نے فیس بک جیسی ایپلیکیشن بنائی اور دنیا ہیں معلومات عامہ کو فروغ دیا۔اس کا بائیکاٹ کر دینا چاہئے اور فیس بک کو پلے سٹور سے ہی ڈیلیٹ کر دینا چاہئے۔

انسٹاگرام کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے جسے امریکن کیون سسٹروم اور مائک کریجر نے 2010 میں بنایا۔

1882 میں پنکھوں کے امریکن موجد اسکگلر سکاٹ کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے جس نے گرم ترین دنوں میں انسانیت کے لئیے مصنوعی ہوا کا بندوبست کیا۔

1871 میں بلب کے موجد تھامس ایڈیسن کو بھی بائیکاٹ کے لئیے نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے تاریک راتوں کو انسانیت کے لئیے روشن کر دیا۔

بائیکاٹ تو ایئر کنڈیشن کے امریکن موجد ویلیز کیریئر کو بھی نہیں بھولنا چاہئیے جس نے 1902 میں ہم سب کی گرم ترین دن اور راتوں کو یخ بختہ بنا کر خود محسنِ اشرافیہ بنا۔

یو پی ایس کے امریکن موجد جون جے ہینلی کو بھی بائیکاٹ میں نہیں بھولنا چاہئیے جس نے 1907 میں ہمیں بجلی کا بھی بیک اپ لینا سکھایا اور بائیکاٹ تو سولر پینل کے موجد بیل لیبس کا بھی کرنا چاہئیےجنہوں نے 1954 میں سورج سے بجلی پیدا کرنے والی سولر پلیٹس مہیا کیں۔

اس طرح اگر ہم بائیکاٹ کرنا شروع کریں تو ہمارے پاس بچتا کیا ہے پین کی نپ سے لے کر کمپیوٹر تک، اور گاڑی کے ٹائر سے لے کر موٹر انجن تک سب انہی غیر مسلموں کی ہی ایجادات ہیں۔

یقیناً ہمیں ان تمام امریکی اوراسرائیلیوں کی پیداواروں کا بائیکاٹ کر دینا چاہیے مگر ایمانداری سے، پینسل آڈیوز، ویڈیوز، ٹائر، گاڑی، جنریٹر، موٹر انجن، اورچولہے سے لے کر گیس سلنڈر تک ان سب چیزوں سے ہمیں بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔ ہمیں منافق نہیں ہونا چاہیے کہ کڑوا کڑوا تھو تھو اور میٹھا میٹھا ہپ ہپ۔

یہودیوں کے ساتھ تجارت کے حوالے سے صحیح بخاری میں حدیث نمبر 2200 میں چند واسطوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقررہ مدت کے قرض پر ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اپنی ذرہ اس کے یہاں گروی رکھی۔
مقصدِ تحریر یہ ہے کہ یہودی سے تجارت بری بات نہیں، حتی کہ ادھار بھی لیا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ اپنی کوئی چیز غلہ کے عیوض گروی بھی رکھی جا سکتی ہے دور نبوی کے دوران یہودیوں نے مسلمانوں سے جنگ بھی لڑی تو اس وقت بھی ان کے ساتھ لین دین نہیں چھوڑا گیا۔

اصل تو جواب یہ ہے کہ مسلمان اپنی ضرورت کی وہ اشیاء جو اللہ تعالی نے حلال قرار دی ہے وہ خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر، خریدی جا سکتی ہے۔ البتہ ترجیح مسلمان تاجر ہی کو دینا چاہئیے، بشرط یہ کہ وہ تاجر یہودی تاجر سے بہتر یا کم از کم اس جیسی ہی اشیاء کا تاجر ہو۔

کچھ شعوری بونے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیلی اور امریکن مصنوعات کا بائیکاٹ ہی مسلمان کا اولین موضوع ہونا چاہیے۔ یہ شعور مجھے اس چیونٹے کی مانند معلوم ہوتا ہے جو اپنے شعور کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی شعور پر ترجیح دے رہا تھا

سورہ النمل آیت نمبر 19 کا مفہوم ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کو آتے دیکھ کر ایک چیونٹے نے چیخ کر کہا چیونٹیو سنو سنو ایک بادشاہ کا لشکر اسی طرف آ رہا ہے تم سب فورا اپنے بلوں میں چھپ جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ بادشاہ اور اس کا لشکر انجانے میں تمہیں کچل کر، نا نکل جائے۔ چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام تمام زبانوں اور بولیوں پر قدرت رکھتے تھے تو یہ سن کر لشکر کو رک جانے کا حکم دیا اور چیونٹے سے مخاطب ہوئے،

تاریخ میں آتا ہے کہ سلمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا کہ اس چونٹے کو لے آؤ کچھ دیر میں چیونٹا سلیمان علیہ السلام کی ہتھیلی پر تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹے سے پوچھا تو چیونٹا بولا میں نے یہ الفاظ آپ کے بارے میں نہیں بلکہ آپ کے لشکر کے بارے میں کہے تھے کہ لشکر سے بے شعوری میں ہم کچل نہ دیے جائیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا تو ہمیں اتنا بے شعور سمجھتا ہے۔
دور حاضر میں عقل و دانش اور شعور کا منبع ہر اس زی روح کو سمجھا جاتا ہے جو اپنے نظریے کو دوسرے کے نظریے پر مسلط کرنے میں کامیاب ہو جائے خواہ وہ نظریہ ایک نظریہ ضرورت کی شکل میں کیوں نہ ہو۔
نظریاتی زندگی اور عملی زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے نظریات کسی مظہر کی فرضیاتی تشریح کا نام ہے جبکہ اس کے مد مقابل عملی زندگی کا نام ہے جس میں روز مرہ اور عملی تجربے سے گزرا جاتا ہے۔ (جمیل احمد)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں