منگولوں کے ہاتھوں1258ء میں بغداد کی تباہی اور خلافت عباسیہ کے خاتمے کو سقوط بغداد کے نام سے یاد کیا جاتاہلاکو خان نے 29 جنوری سنہ 1257 کو بغداد کے محاصرے کا آغاز کیا تھا۔ حملے سے پہلے اس نے خلیفہ معتصم باللہ کو لکھا”لوہے کے سوئے کو مکہ مارنے کی کوشش نہ کرو۔ سورج کو بجھی ہوئی موم بتی سمجھنے کی غلطی نہ کرو۔ بغداد کی دیواریں فوراً گرا دو۔ اس کی خندقیں پاٹ دو‘ حکومت چھوڑ دو اور ہمارے پاس آ جاؤ۔ اگر ہم نے بغداد پر چڑھائی کی تو تمھیں گہری ترین پاتال میں پناہ ملے گی نہ بلند ترین آسمان میں“ ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کی وہ شان و شوکت تو نہیں تھی جو ان کے عظیم الشان اجداد کے حصے میں آئی تھی، لیکن پھر بھی مسلم دنیا کے بیشتر حصے پر ان کا سکہ چلتا تھا اور خلیفہ کو زعم تھا کہ اس پر حملے کی خبر سن کر مراکش سے لے کر ایران تک کے سبھی مسلمان ان کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں گے۔چنانچہ خلیفہ نے ہلاکو کو جواب میں لکھا: ‘نوجوان، دس دن کی خوش قسمتی سے تم خود کو کائنات کا مالک سمجھنے لگے ہو۔ جان لو کہ مشرق تا مغرب خدا کے ماننے والے اہلِ ایمان میری رعایا ہیں۔ سلامتی سے لوٹ جاؤ۔منگول فوج تکنیکی لحاظ سے بھی کہیں زیادہ برتر اور جدید ٹیکنالوجی سے بہرہ ور تھی-منجنیقوں نے شہر پر آتشی بارش برسانا شروع کر دی۔ یہی نہیں، منگولوں نے فصیل کے نیچے باردو لگا کر اسے بھی جگہ جگہ سے توڑنا شروع کر دیا۔منگول افواج نے13 دن سے بغداد کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ جب مزاحمت کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو دس فروری سنہ 1258 کو فصیل کے دروازے کھل گئے۔ 37
ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ اپنے وزرا اور امرا کے ہمراہ مرکزی دروازے سے برآمد ہوئے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے منگول مذہب میں کسی بادشاہ کا زمین پر خون بہانا بدشگونی سمجھا جاتا تھا۔خلیفہ کو قید کر کے بھوکا رکھا گیا چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا، ”کھاؤ“مستعصم باللہ نے کہاہیرے کیسے کھاؤں؟’ ہلاکو نے جواب دیا: ‘اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔عباسی خلیفہ نے جواب دیاخدا کی یہی مرضی تھی ہلاکو نے کڑک داد لہجے میں کہااچھا، تو اب میں جو تمھارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔’ اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دیے تاکہ زمین پر خون نہ بہے-معتصم باللہ کی بیوی نے غیرت کی ایک مثال قائم کی جب اسکو خلیفہ کی موت کے بعد ہلاکو کے سامنے پیش کیا گیا اسکے ساتھ ایک لونڈی بھی تھی ملکہ نے لونڈی کے کانوں میں کچھ کہاجیسے ہی ہلاکو نے ملکہ کو خواہشات کی تکمیل کے بارے میں بولا سامنے پڑی معتصم باللہ کی تلوار سے لونڈی نے ملکہ پر حملہ کر اسے دو ٹکڑے کر دیا اور ساتھ ہی ہلاکو خان سے بولی ملکہ کی آخری خواہش تھی کہ اگر ہلاکو کے سپاہی مجھے پر تشدد کریں تو روکنا مت لیکن کسی کی بُری نظر مجھے پر پڑی پھر ہوسکے تو مجھے قتل کر دینااسکے ساتھ ہی لونڈی نے تلوار اپنی بھی گردن میں گھسا دی یہ معجزہ دیکھ کر ہلاکو کچھ دیر تک دونوں لاشوں کو دیکھتا رہا اور خاموش رہاپھر بولا میری خوش قسمتی کہ خلیفہ کی جگہ ملکہ تخت نشین نہیں تھی ورنہ آج بھی بغداد کے لیے لڑ رہا ہوتا یا شکست خوردہ ہوتاجو تباہی ہلاکو خان بغداد میں کر کے گیا اسکے نتائج رہتی دنیا کی انسانیت کو اٹھانے پڑ رہے ہیں بیت الحکمہ، جو بے شمار قیمتی تاریخی دستاویزات اور طب سے لیکر علم فلکیات تک کے موضوعات پرلکھی گئی کتب کا گھر تھا سب کو تباہ کر ڈالا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے کہا کہ دریائے دجلہ کا پانی ان کتب کی سیاہی کے ساتھ سیاہ پڑ گیا جو بہت زیادہ تعداد میں دریا میں پھینک دی گئی تھیں۔ نہ صرف یہ مگر کئی دنوں تک اس کا پانی سائنسدانوں اور فلسفیوں کے خون سے سرخ رہا۔ شہریوں نے فرار کی کوشش کی مگر منگول سپاہیوں نے کسی کو نہیں چھوڑا۔
دارالترجمہ بیت الحکمہ میں یونانی، لاطینی، سنسکرت، سریانی اور دوسری زبانوں سے کتابیں ترجمہ ہونے لگیں۔ یہی کتابیں صدیوں بعد یورپ پہنچیں اور انھوں نے یورپ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ الجبرا، ایلگوردم، الکیمی، زینتھ، الکوحل وغیرہ جیسے درجنوں الفاظ بغداد کے اسی سنہرے دور کی دین ہیں۔بغداد میں بسنے والی چند مشہور ہستیوں کے نام بھی جن میں جابر بن حیان (جدید کیمسٹری کا بانی)، الخوارزمی (الجبرا کا بانی)، الکندی اور الرازی (مشہور فلسفی)، الغزالی (مشہور مفکر)، ابونواس (عظیم عربی شاعر)، شیخ سعدی،(عظیم فارسی شاعر)، زریاب (مشہور موسیقار)، طبری (مشہور تاریخ دان)، امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام ابو یوسف (مذہبی رہنما) اور بے شمار انکے شاگرد شامل ہیں ہلاکو خان نے جب سب کچھ تباہ کر دیا بغداد مکمل طور پر فتح کرنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ وہ شہر کے سب سے بڑے عالم سے ملنا چاہتا ہے مگر ڈر کے مارے کوئی ملنے کو تیار نہیں تھاآخر کار”کادِہان“ نامی مدرسے کا ایک استاد ملنے کو آیا مگر اپنے ساتھ ایک اونٹ ایک بکرہ ایک مرغا بھی لے آیاہلاکو خان نے سر سے پاؤں تک دیکھنے کے بعد سپاہیوں کو بولا یہی ملا کیا تمیں؟کادِہان ایک دم بولا اگر کسی بڑے سے ملنا چاہتے ہو تو اونٹ باہر کھڑا ہے، داڑھی والے سے ملنا چاہتے ہو تو بکرا باہر کھڑے ہے اونچی آواز والے سے بات کرنا چاہتے ہو تو مرغا باہر موجود ہے ہلاکو سمجھ گیا بندہ ہوشیار ہے پھر اس نے سوال کیا کک وہ کونسی چیز ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے
کادِہان نے جواب دیا ہمارے اعمال اللہ نے ہمیں بہت نوازا مگر ہم ناشکرے نکلے عیاشیوں، پوزیشنوں، اور جائیدادوں کو ترجیح دی بجائے اسکے کے دین کو ترجیح د یتے ا س لیے اللہ نے تمیں بھیج کر ہم سے سب کچھ واپس لے لیاپھر ہلاکو خان نے سوال کیا مجھے یہاں سے کیا چیز واپس بھیج سکتی ہے کادِہان نے جواب دیا اگر ہم خود کو پہچاننے کی کوشش کریں خدا کا شکر بجا لائیں آپس کی لڑائیاں، اختلافات ختم کریں تو تم یہاں ایک دن کے لیے نہیں راہ سکو گے آج جس دور سے مسلمان گزر رہے وہ زمانہ دُور نہیں جب ایک اور ہلاکو خان آئے گا اور نام نہاد مسلمانوں کو ایک بار پھر روند ڈالے گاہم دولت اور پیسے کے پیچھے لگے ہیں – نااہل حکمران ایک دوسرے کے دست گریباں ہیں – ملکہ کی طرح کے غیرت مند اور قابل لوگوں کو آگے انے کا موقع ہی نہیں دے رہے۔ہر کوئی اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے کسی کو دیس اپنے دین کی پرواہ نہیں اور ہم ان حکمرانوں کا ساتھ دے رہے ہیں کیوں کہ یہ ہمارے مفادات کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں۔کیا خوب لکھا کسی نے کہ
یہاں تہذیب بِکتی ہے، یہاں فرمان بِکتے ہیں
ذرا تُم دام تو بدلو، یہاں ایمان بِکتے ہیں“