کاشف حسین،پنڈی پوسٹ/ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کے اسباب پر نظر دوڑایں تو ایک بات مشترک دکھا ئی پڑتی ہے کہ ترقی یافتہ تمام ممالک نے دو شعبوں کو ترجیحات میں شامل کیا اول ایجوکشن دوائم ہیلتھ اقوام عالم کی ترقی یافتہ قومیں بہترین تعلیمی معیار اور صحت مند معاشرہ کے سلوگن کو لے کر ترقی کی منازل طے کرتی ہیں یقینا یہی سلوگن دنیا بھر میں ترقی کی معراج کا ضامن قرار پایا اس کے بر عکس ہمارے معاشرے میں جہاں ذاتی مفادات اناپرستی اور کرپشن و کمیشن پالیسی نے تمام اداروں سمیت محکمہ ایجوکشن کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے تعلیم اب صرف بوٹی مافیا کے رحم وکرم پر ہے ،سرکاری سرپرستی میںچلنے والے اسکولز اور کالجز کی عمارتیں بھوت بنگلوں کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہیں آئے روز سرکاری اسکولز کی چھتیں پلستر اگلتی دیکھائی پڑتی ہیں سرکاری عدم توجہی نے جہاں تعلیمی معیار کو ڈسٹرب کیا ہے وہیں سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی زندگیوں کو بھی خطرے سے دوچار کر رکھا ہے ،گذشتہ دنوں بیول ہائر سکینڈری اسکول کی خستہ حال عمارت کے دو کمروں کی دیواریں خود اپنے بوجھ سے زمین بوس ہوگئیں خیر یہ گذری کہ یہ واقعہ شب دیر گئے پیش آیا جب اسکول آف تھا گمان کریں کہ اگر یہ ناگہانی آفت اسکول ٹائم میں آئی ہوتی تو کتنا جانی نقصان ہوتا ،اس وقت بیول ہائر سکیڈری اسکول کل بیس کمرے ہیں جو دو منزلوں پر مشتمل ہیں ان کی خستہ حالی کا عالم یہ ہے کہ اوپر کی کلاسوں میں طالب علموں کی چلنے پھرنے سے نیچے کلاسوں کی دیواریں لرزتی ہیں جس سے طالب علم ہر وقت خوف کا شکار رہتے ہیں اسے ماحول میں کیا تعلیم دی اور لی جاسکتی ہے اسکول میں اس وقت1070 اسٹوڈنٹ زیر تعلیم ہیں ، پرائمری اور ہائر سکینڈری اسکولز میں ٹیچر زکی کل تعداد 36ہے جبکہ پوسٹوں کی کل تعداد54ہے یعنی اس وقت بھی یہاں اٹھارہ اساتذہ کی ضرورت ہے جس پر محکمہ کی توجہ ہے اور نہ کسی منتخب نمائدے کی،عمارت کی انتہائی مخدوش حالت کسی وقت بھی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے ،دو کمرے زمین بوس ہونے کے باوجود اس ایشوکوحکومتی سطح پر سنجیدگی سے نہیں دیکھاگیا نوٹس لیا وزٹ کیا فوٹو سیشن ہوا بس ،اب معاملہ یوں بنا کہ اسکول انتظامیہ نے بلا افسران کو حال حقیقت لکھ بجھوائی ای میٹنگ کال ہوئی سی او صاحب اور ایم پی صاحب بھی پہنچے ،سی او صاحب نے بیس کمروں میں سے صرف تین کمرے تعمیر کروانے کاذمہ لیا باقی کام کے لیے موصوف نے ایم پی اے صاحب سے بات کرنے کا مشورہ دیا جس پر ایم پی اے صاحب اپنی حکومت کے منشور پر عمل کرتے ہوئے مالی مسائل خزانہ خالی کو مژدہ سنایا اور اسکول کو اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کرنے کا آئیڈیا پیش کیا جس کے لیے انہوں اپنی جیب سے ایک لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ کیا جبکہ تعمیرات کا تخمینہ لگ بھگ تین کروڑ تک لگایا گیا ہے جس میں چوبیس کمرے بنانے کا پلان ہے ،اسکول انتظامیہ کی جانب سے آفیشلی طور پر ایک آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ملک کے اندر اور بیرون ممالک اس حوالے سے فنڈ ریزنگ کرےگی اور وہی کمیٹی تعمیرات کے معاملات بھی دیکھ بھال کرئے گی ،اسکول میں تعینات تمام اساتذہ بھی اس میں اپنا پنا حصہ ڈالیں گے ،حکومتی ایم پی اے کی جانب سے اپنے خستہ حال اسکول کے لیے اپنی حکومت سے فنڈز کی منظوری سے معذوری کا کیا نام دیا جائے ،ویسے یہ تعریف تو بنتی ہے کہ انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بیول کے لوگوں کو ایک گائڈ لائن تو دی شاید یہی وجہ ہے انسانی فطرت اپنی آزادی وضع میں حکومت کے تسلط کو تسلیم کرنے سے انکارکرتی ہے کیونکہ ہر حکومت نے ہمیشہ ایک ظالمانہ اور غاصبانہ بندوبست گردانا ہے ہی بھی یہی کہ ہر حکومت اپنے جوہر میں ایک جبر ہے اور انسانی تاریخ اس جبر سے چھٹکارہ پانے کی پے در پے کوششوں کا رزمہ نامہ ہے تاریخ کی جھنجلائی ہوئی دست وپا جراتیں سولی پرچڑھ جانے والی سینہ خیز صدائیں اور بھپری ہوئی لہولہان بغاوتیں ہم پر یہی راز منکشف کرتے ہیں کہ ہر حکومت صرف عوام کو جھوٹے نعروں اور سہنانے خوابوں سے بہلاتی ہیں اچھی حکومت وہ ہے جسے معاشرہ اپنے احساس ،اازادی کا ضامن اور وکیل سمجھے جس کے افراد فریب خوردگی کے بغیر فرائض میں حقوق کی لذت پاتے ہوں یہاں تو عوام ہر حکومت کو اپنی امنگوں کا حریف ہی سمجھتے آئے ہیں ،بہر حال اسکول انتظامیہ کی اس حوالے جہدوجہد لائق تحسین ہے ،حکومت سے کوئی آس نہ رکھیں ،کیونکہ وہ ڈیڑھ سال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا ۔
128