174

ان پڑھ شعور

واہ کیا راہ دکھائی ہے، ہمیں مرشد نے
کر دیا ہے کعبہ کو گم، اور کلیسہ نہ ملا
ایک جنگل میں بہت چالاک گیدڑ رہا کرتاتھا۔ اس گیدڑ کو ایک روز اخبار کا ٹکڑا ملا، جس میں گیدڑ کی تصویر تھی۔ گیدڑ اس اخباری تراشے کو دیکھ کر اس قدر خوش ہواکہ وہ اس کاغذ کے ٹکڑے کو لے کر جنگل کے تمام جانوروں کو دکھانے لگا۔ آج اس کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کا دن تھا۔ اس گیدڑ نے تمام جانوروں کو بتانا شروع کیا کہ آج کے بعد سے موروثی بادشاہت کا قلعہ قمعہ ہونے کو ہے۔ اس اخبار میں اعلان ہو گیا ہے کہ آج کے بعد جنگل کا بادشاہ گیدڑ ہی ہو گا۔ آج سے تمام جانورباشعور جانور کہلائیں گے۔ وہ اس موروثیت کی بادشاہت کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔


اگر کسی کو یقین نہیں ہے تو باشعور اور علم رکھنے والے جانور اس اخبار کو پڑھ لیں۔ یہ سننا تھا کے چند نوجوان جانوروں نے جو اس کے طفیلے قبیلے سے تھے انھوں نے اخبار دیکھا اور نعرہ لگا دیا کہ ”جب تک سورج چاند رہے گا گیدڑ تیرا نام رہے گا“۔ ماحول کو تبدیل ہوتے دیکھ کر شیر آگے بڑھا اور اخبار کا ٹکڑا اپنے ہاتھ میں لے کر تصویر کو بغور دیکھنے لگا۔ اب شیر گیدڑکی اخباری تصویرسے مماثلت کو جانچتے ہوئے کچھ دیر تخلیہ کے بعد اخباری تراشہ تمام جانوروں کو دکھانے لگا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ بادشاہِ وقت گیدڑ کی حکومت تسلیم کر چکا ہے۔


اس دن کے بعد شیر کی حکومت ختم ہو گئی اور گیدڑ کی سیاست شروع ہو گئی۔گیدڑ چونکہ بہت عیار تھا اس نے بہت مفاہمت کے ساتھ کام کیا۔ جوجانور اس کے خلاف ہونے کی کوشش کرتاتو اسے فوراََ اس سے بڑے اور خونخوار جانور کی خوراک بنا دیا جاتا۔ اور باقی جانوروں کو چوک و چوراہوں پر مفاہمت کایہ شعور بیچا جاتاکہ جو بھی گیدڑ کو اصل بادشاہ نہیں مانتا وہ بے شعور ہے اور ایک دن آئے گا کے اس کو بھی شعور آجائے گا۔
گیدڑ تمام جانوروں کو روز یہ باور کراتا کہ میں بہت صحیح طریقے سے حکومت میں آیا ہوں، اب ڈکٹیٹر شپ اور آمریت کا اختتام ہو چکا ہے۔ اب صرف اور صرف جمہوریت کا دور ہے۔ اور جمہوریت ہی ہمارے لئے صحیح راستہ ہے کیونکہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔


ابھی گیدڑ صاحب اپنے اوپر بہترین سیاست دان اور بہترین شہنشاہ ِمفاہمت کا ٹائٹل چسپاں کرنے پر تلے ہوئے تھے کہ اچانک کچھ شکاری جنگل میں آگئے۔ اب مفاہمت، سیاست اوربادشاہت کے لئے جنگی آزمائش کا وقت تھا اور گیدڑ صاحب کو اس جنگ میں جنگل کے تمام جانوروں کو بچانے کی آزمائش سے گزرنا تھا۔ مگر وہاں اس کے برعکس ہوا۔ جنگل کا بادشاہ یعنی گیدڑ صاحب سب سے آگے بھاگ رہے تھے۔ یہ بہت مضحکہ خیز حرکت تھی۔ جو جنگل کے تمام جانوروں کو بہت ہی معیوب لگی۔ اوربادشاہِ وقت یعنی گیدڑ سے دریافت کرنے لگے کہ بادشاہ سلامت آپ تو بادشاہِ وقت ہیں، آپ ہی تو ہمارے لئے واسطہءِ نجات ہیں، آپ ہی تو اصل جمہوری بادشاہ ہیں، آپ نے جس اخبار سے ہمیں شعور دیا تھا وہی اخبار ان شکاریوں کو پڑھا دیں تا کہ یہ آپ کو جنگل کا بادشاہِ وقت جان سکیں اور آپ کے آرڈرز کو بلا چوں چراں تسلیم بلکہ فالو کریں۔

اس وقت چالا ک گیدڑ نما بھیڑیا ایک تاریخی جملہ کہتا ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ بھاگو اور اپنی اپنی جانیں خود بچا لو، کیونکہ یہ جو شکاری ہیں یہ ان پڑھ لوگ ہیں۔ تاہم یہ شکاری اخبار پڑھ نہیں سکیں گے۔ لہٰذہ! ہمیں اپنی جان خود ہی بھاگ کر بچانا ہوگی۔۔۔!


اب شکاری شعور کو مار گرائیں یا شعور بھاگ بھاگ کر حماقت اور شعور میں فرق واضح کرے۔ عقلی دلیل یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر آپ کم عقلی اور جہالت کی زندگی میں لپٹے ہوئے ہیں تو کوئی بھی گیدڑ آپ پر اپنی ذہانت اور چالاکی سے حکمرانی کر سکتا ہے، خواہ وہ حکمرانی جمہوری ہو یا غیر جمہوری!

اکبر الآبادی نے کیا خوب کہا ہے!
دل میرا جس سے بہلتا، کوئی ایسا نہ ملا
بت کے بندے ملے، اللہ کا بندہ نہ ملا

واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کر دیا ہے کعبہ کو گم، اور کلیسہ نہ ملا

سیّد اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں آئے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے، پیسہ نہ ملا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں