112

انچھوہا کے علاقائی سیاست پر اثرات

آصف خورشید ( سر صوبہ شاہ )
تم پھر نہ آ سکو گے بتانا تو تھا مجھے تم دور جا کے بس گئے ، میں ڈھونڈتا پھرا
اگر آپ لوگوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا تو میں جیت کر آپ کے اس علاقے کی قسمت بدل دونگا ۔ میں دیرینہ مطالبات پورے کر دونگا ۔ میں جیت کر ان ٹوٹی ہوئی سڑکوں کو بہترین شاہراہوں میں بدل دونگا ۔ میں اس علاقے سے بیروزگاری اور پسماندگی کو ختم کر دونگا ۔ میں جیت کر نوجوانوں کو نوکریاں دلواؤں گا ۔ نہ صرف آپ کے پا س آؤں گا بلکہ آپ کے مسائل سن کر فوری حل کروں گا ۔ تحصیل کلر سیداں کی سب سے پسماندہ یونین کونسل کا نقشہ بدل دوں گا ۔ یہاں کا ہر گلی کوچہ ہماری گواہی دے گا
آپ حیران نہ ہوں ؟ یہ جملے میرے نہیں بلکہ آج سے ساڑھے چار سال پہلے 2013 ؁ء کے انتخابات میں ہر گلی کوچے ، ہر میٹنگ اور ہر جلسے میں دوہرائے جانے والے یہ الفاظ ان سیاسی وڈیروں کے ہیں جو ہمارے نمائندے بن کر ہم پر مسلط ہیں ۔ میں مشکور ہوں ان لوگوں کا جنہوں نے کہا اور سچ کر دکھایا ، میں مشکور ہوں ان لوگوں کا جنہوں نے اس علاقے کی قسمت بدل ڈالی ، جنہوں نے ان ٹوٹی سڑکوں کو کارپٹ شاہراہوں میں تبدیل کر دیا ، میں مشکور ہوں جنہوں نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو نہ صرف نوکریاں دیں بلکہ اس علاقے کے مسائل حل کرنے کیلئے اپنے دفاتر بھی کھولے ، میں مشکور ہوں ایم پی اے صاحب کا جنہوں نے اس علاقے کے اسکولوں کو اپ گریڈ کیا ۔افسوس ! وہ وعدہ ہی کیا وہ افا ہو جائے
؂ ذرا اپنی اداؤں پر غور کرو ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
یاد رہے ! یہ علاقہ اس یونین کونسل منیاندہ کا حصہ ہے ، 2013ء انتخابات میں جس یونین کونسل کے رزلٹ نے بقول انہی لوگوں کے شکست کو فتح میں بدل دیا ۔شاید بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ یونین کونسل منیاندہ کا ایک حصہ نالہ کانسی کے دوسری جانب بھی موجود ہے اور یہ علاقہ یونین کونسل منیاندہ کا حصہ ہے ڈوگرا راج سنگھ بکا ہوا ٹکڑا نہیں جسے ایک عرصے سے ان نمائندوں نے پسِ پشت ڈالا ہوا ہے ایک عرصے سے اس یونین کونسل کے وڈیرے اپنی چھتوں پر کھڑے ہو کر انگلی کے اشارے سے ان کی ووٹوں کا سودا کرتے رہے ۔ موجودہ ایم پی اے ساڑھے چار سال گزرنے کے باوجود اس علاقے کو کوئی اچھا پیکج نہ دے سکے اور اس علاقے کے مسائل جوں کے توں ہی رہے ۔ اس علاقے کا واحد رستہ انچھوہا روڈ جو آج بھی زبوں حالی کا شکار ہے ۔ حال ہی میں اس کے لیے گرانٹ تو منظور ہوچکی ہے کام کس حد تک ہوتا ہے وقت ہی بتا سکتا ہے
1980 ء کی دہائی میں قائم ہونے والے اسکول آج بھی اپ گریڈ نہ ہو سکے اور نہ ہی ان سکولوں کا کوئی باقاعدہ رستہ ہے ۔ بارش کی صورت میں وبالِ جان بن جاتا ہے ۔ طالبِ علموں کو کھیتوں سے گزر کر آنا پڑتا ہے ۔ موجودہ دور میں ہر جگہ جانوروں تک کے علاج کیلئے ویٹرنری ہسپتال قائم ہیں مگر بدقسمتی سے اس علاقے کے لوگوں کیلئے ڈسپنسری تک کی سہولت میسر نہیں ۔ یہ وہ مسائل بلکہ اس علاقے کے لوگوں کے وہ بنیادی حقوق ہیں جن کو گزشتہ کہیں دہائیوں سے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کو حل کرنے کی کوشش تک بھی نہیں کی گئی ۔ موجودہ ایم پی اے راجہ محمد علی ساڑھے چار سال تک اس علاقے سے غائب ہی نظر آئے سوائے کسی جنازے کے ، مگر اب حکومت کے آخری چند ماہ رہ گئے ہیں اس انچھوہا سڑک کیلئے 6کر وڑ 10لاکھ روپے کی گرانٹ منظور ہو چکی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اہلِ علاقہ کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اس سڑک کا سروے سر صوبہ شاہ بازار سے آدھا کلو میٹر چھوڑ کر کیا گیا اس کو مکمل کیا جائے کیونکہ اس پورے علاقے کا واحد رستہ یہی ہے جو کہ سر صوبہ شاہ تا بناہل بائی پاس لنک روڈ کی حیثیت رکھتا ہے اور آدھا کلو میٹر کا یہ ٹکڑا جو کہ ایک تنگ سی گلی پر مشتمل ہے اس رستے سے کسی بڑی گاڑی کا داخلہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس تنگ گلی دو گاڑیاں کراس ہو سکتی ہیں اگر سروے کے دوران اس کا کوئی متبادل حل نکل سکے تو حل نکالا جائے جو کہ گاؤں نمب میرگالہ سے ممکن ہے ۔
اس کے علاوہ بہت سے ایسے مسائل ہیں اگر موجودہ ایم پی اے اور بلدیاتی نمائندوں نے توجہ نہ دی تو 2018ء کے انتخابات میں مایوس کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جو آگے چل کر بلدیاتی نمائندوں کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں