کہا جاتا ہے کہ ربّ سے ڈرتے رہو جس کی صفت یہ ہے کہ اگر تم بات کرو تو وہ سنتا ہے اگر دل میں رکھ لو تو وہ جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے بارے میں فرماتا ہے
کہ انسان سنبھل کر اور ہوش میں رہ کر چل۔ انسان خطا کا پُتلہ ہے اور جلد باز بھی ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انسان ایک ہی غلطی بار بار کرے اور اس جملے پر مطمئن ہو جائے کہ انسان خطا کا پُتلہ ہے۔ بلکہ انسان وہ ہے جو غلطیوں کو دہرانے کی بجائے دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھے۔
اللہ کی ذات جب اس پر مہربان ہوتی ہے تو مجھ جیسا گنہگار ہواؤں میں اُڑنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ سمجھتا ہے کہ اُسکی سب کامیابیاں اور خوشخال زندگی اس کی محنت کی وجہ سے ہے۔
یہ سوچے سمجھے بغیر کہ محنت کرنے کی صلاحیت بھی تو خدا ہی دیتا ہے۔ کیونکہ وہ چلتے چلتے انسان کو کسی بھی مصیبت میں آزمائش کی شکل میں یا سزا کی صورت میں مبتلا کر سکتا ہے۔ ماسوائے چند انگلیوں پر گنے چنے پرہیزگاروں کے۔ آج کا انسان ہر مشکل وقت میں اللہ سے معافی مانگتا ہے
اور سیدھے رستے پر چلنے کا وعدہ کرتا ہے لیکن جیسے ہی اُسکی تکالیف آسانیوں میں تبدیل ہونے لگتی ہیں تو یہ بدبخت انسان پھر اللہ کی ذات کو بھُلا کر دُنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتاہے اور اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بعد کوئی مشکل وقت اس پر نہیں آئے گا۔ اللہ کی ذات ہر اس انسان کو مشکلات سے دوچار کرتی ہے
جس سے وہ محبت کرتی ہے۔ اوریہ دُنیا کی تکالیف ابدی زندگی میں آسائشیں حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ وہ آسانیاں، جس کے مقابلے میں دُنیا کی سینکڑوں برس کی آسائشیں بے معنی ثابت ہوجاتی ہیں، لیکن بات اللہ کی ذا ت پر یقیں اور بھروسے کی ہے۔
جس شخص نے یہ راز پا لیا وہ دُنیا کی پریشانیوں سے بے نیاز ہو کر آخرت کی فکر میں رہ کر اس سنہری زندگی کو سوچ کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی پیروری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آج کا انسان اگر کسی جنازے میں بھی جاتا ہے تو اس وقت یقین کر لیتا ہے کہ ہم سب کی آخری پناہ گاہ یہی ہے
لیکن چند ہی لمحوں بعد دُنیا کی روشنائیاں اسے اندھا کر دیتی ہیں اور پھر وہی قہقہے اور وہی لُطف و سرور کی محفلیں آج کے انسان کا مقدر بن جاتی ہیں۔
میری بات زرا غور سے سنیں۔ہوا یوں کہ ایک صبح اچانک میرا گلا بند ہوتا ہوا محسوس ہوا اور مجھے ایسے لگا کہ جیسے مجھے سانس لینے میں رکاوٹ ہو رہی ہو۔ میں نے اپنی مسز سے پوچھا کہ زرا دیکھ کر بتائیں کہ میرے گلے میں کوئی سوجن تو نہیں ہے۔ پتہ چلا گلہ ایک سائیڈ سے باہرکی طرف اُبھرا ہوا ہے۔
ہم نے یہی سوچا کہ کوئی ٹھنڈی یا گرم چیز کھانے کی وجہ سے انفیکشن ہو گیا ہے۔ لیکن پریشانی میں سارا دن گزرا۔ شام کو جب ڈاکٹر کو دکھایا تو ڈاکٹر نے ایک ٹیسٹ لکھ کر دیا جسے TSH کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ٹیسٹ ہے کہ جس سے گلہڑ کی بیماری کا شبہ ہو جانے کی صورت میں تجویز کیاجاتا ہے۔
اگلے ہی دن میں نے وہ ٹیسٹ لیب سے کروایا شام کو رپورٹ لینے گیا تو پتہ چلا کہ ٹیسٹ کلیئر ہیں۔ یعنی گلہڑ جیسی بیماری کا کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن یہ خوشی کی بات نہیں تھی خطرے کی گھنٹی تھی کہ خدا نہ خواستہ خطرناک غدود نہ بن گئی ہو۔ رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب بھی تشویش میں مبتلا ہو گئے
اور اگلے ٹیسٹ کے لیئے مجھے اس ہسپتال بھیج دیا گیا جس کا نام سن کر انسان پریشانی سے بے حال ہو جاتاہے۔ ڈاکٹر نے مجھے نوری ہسپتال بھیجا جہاں سے یہ معلوم ہونا تھا
کہ خدا نہ خواستہ کینسر تو نہیں ہے۔ مجھ جیسے گنہگار کے لیئے یہ قیامت کی گھڑیاں تھیں۔ تھائرائیڈ سکین کروانے کے بعد نوری ہسپتال کے ڈاکٹر نے اپنے تجربے سے بتایا کہ یہ خطرناک نہیں ہو گا انشاء اللہ۔ اس کے بعد میں نے AFIP جانا تھا۔
یہ رپورٹ لے کر جب میں وہاں پہنچا تو میں نے چارلوگوں کو اس ٹیسٹ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ اس کے علاوہ باقی مریضوں کی تعداد انگنت تھی۔ اس ٹیسٹ کے لیئے تعداد اس لیئے کم تھی کہ یہ مرض بہت کم لوگوں کو لاحق ہوتا ہے لیکن یہاں سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ مرض ہے یا نہیں۔ ایک سرنج کے ذریعے میرے گلے سے خون کا نمونہ لیا گیا جس کے بعد یہ ثابت ہونا تھا کہ یہ مرض کس حد تک خطرناک ہے۔
انتظار کی گھڑیاں اتنی طویل ہو جایا کرتی ہیں مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ بہت بڑے حوصلے والا شاہد جمیل چندلمحوں میں ہی خستہ حال ہو گیا۔AFIP کے عملے سے ملنے کے بعد مجھے بہت حوصلہ ہوا اور میرے ٹیسٹ کے لیئے خون کا نمونہ لینے والے میجر صاحب نے رپورٹ دیکھنے کے بعد مجھے ایک چھوٹے بچے کی طرح سمجھایا کہ الحمداللہ آپ کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ تسلی کے ایسے جملے تھے جنہوں نے مجھے نئی زندگی عطا کر دی۔ اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ اندازِ بیاں انقلاب برپا کر دیا کرتا ہے اور زبان کی کڑواہٹ قوموں تک کو جنگ و جدل کی کھائی میں پھینک دیا کرتی ہے۔ میرے والد گرامی راجہ ایّوب خان نے تقریباََ 25 برس پاکستان آرمی میں گزارے اور دیارِ غیر میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جب بھی پاکستان آرمی کے اقدامات اور اصولوں کی بات آتی تو ہمیشہ تعریفی جملے ان کی زبان سے سنے گئے۔
لیکن اس دفعہ مجھے بذات خود پاکستان آرمی کے ہسپتال میں جانا پڑا تو معلوم ہوا کہ ملک کی سرحدوں کی محافظ پاک فوج آج عوام کے شانہ بشانہ ہے جس کی مثالAFIPاور اس سے منسلک شعبوں کی دینا چاہوں گا۔ مختصر یہ کہ یہاں سے فارغ ہونے کے بعد پاکستان کے معروف سرجن پروفیسر ڈاکٹر حنیف صاحب کے پاس گیا۔ اس ہنر مند ہستی کے پاس مجھے میرے بہت کی مخلص دوست سٹی لیب نیٹ ورک کے مالک اور پاکستان گرین ٹاسک فورس کے پریزیڈنٹ ڈاکٹر جمال ناصر صاحب نے بھیجا۔
اس سارے عرصے میں وہ میرے ساتھ رہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جب میں نے انہیں اپنی بیماری بتانے کے لیئے فون کیا تو وہ مصروفیات کی وجہ سے میری کال اٹینڈ نہ کر سکے اور فارغ ہونے کے بعد اُنہوں نے خود فون کر کے مجھے کہا کہ فوراََ میرے پاس آئیں اور اپنے ٹیسٹوں کی رپورٹس مجھے دکھائیں۔ ایک ایسی ہستی جس کے پاس چوبیس گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ مصروف ترین ہے۔ لیکن انہیں مجھ ناچیز سے اتنا پیار ہے کہ ہمیشہ مجھے شاہد بھائی کہ کر بُلاتے ہیں جو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس دن ڈاکٹر جمال ناصر صاحب نے مجھے ڈاکٹر حنیف صاحب کے پاس بھیجا۔ انتہائی صاف گو اور کھری بات کرنے والی ہستی سے مل کر مجھے اچھا لگا۔
انہوں نے مجھے آپریشن کا ٹائم دیا اور 26 مارچ 2010 کو ڈاکٹر صاحب نے انتہائی احتیاط اور تسلی سے میرا آپریشن کیا۔ آپریشن کے بعد ڈاکٹر صاحب نے میرے گھر والوں کو جو جملے بولے وہ یہ تھے ”میں نے بہت احتیاط سے اللہ کو یاد کر کے شاہد صاحب کا آپریشن کیا اور پوری کوشش ہے کہ ان کی آواز میں کوئی تبدیلی یا خرابی نہ آئے کیونکہ وہ اللہ کے نبیﷺ کی نعت بیان کرتے ہیں“۔ چند ہی لمحوں بعد مجھے ہوش آیا تو میری آواز میں کوئی خاص تبدیلی نہ تھی۔ جو کہ میرے لیئے حیران کن بات تھے۔
پھر میں نے سوچا کہ یہ معجزہ کیوں نہ ہوتا، میں لاکھ گنہگار سہی لیکن اللہ کے رسولؐ کی تعریف میری اس زبان سے بیان ہوتی ہے۔ باوجود اسکے کہ میں اس قدر گنہگار اور لاپرواہ ہو چکا ہوں کہ ایک وقت تھا کہ میں نعت پڑھنے کے لیئے بے تاب رہا کرتا تھا۔ اللہ نے مجھے ریڈیو اور ٹیلیوژن پر نعت پڑھنے کے ساتھ ساتھ مجھے چھ کتابوں کا مصنف بنایا اور ان میں تین کتابیں ایسی کہ جو نبیﷺ کی شان میں لکھی گئی ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف میرے اللہ کا کرم ہے ورنہ میں گناہوں میں لپٹا ہوا ہوں۔
لیکن آج میں ایسی محافل میں اس ذوق و شوق سے نہیں جا رہا کہ جیسے اس سے قبل جایا کرتا تھا۔ اللہ نے مجھے اس آزمائش میں ڈال کر واپس لانے کی ہمت دلائی اور مجھے ایک اور موقع دیا۔ میں اُس دن اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہوتا صرف وہی ہے جو کل کائنات کا مالک اللہ چاہتا ہے۔ جب کسی انسان کی عقل بڑی ہو جائے تو اللہ کی ذات جھنجوڑ کر اسے اپنی طرف لاتی ہے اور میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ مجھے تادم مرگ اچھے راستوں پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
عمر بھر میں یہی بھول کرتا رہا
دھول چہرے پہ تھی اور میں آئینے بدلتا رہا