columns 177

افغان طالبان کی واپسی اور حقیقت پسندانہ سوچ

ملکی اور عالمی اخبارات میں امریکہ کی شکست کے تذکرے اور طالبان کی فتح کی خوش کن خبروں نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے زوال کے دور میں حقائق اور واقعات کو ان کے اصل تناظر میں دیکھنے اور جاننے کا ہمارا فہم خوش فہمیوں کے ملبے تلے دب چکا ہے جس کی وجہ سے ہم مسلمان دنیا کو اپنی خواہشات کے اسیر ہو کر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں افعانستان میں طالبان کی منظر عام پر واپسی اور امریکی فوج کا انخلا ہماری خواہشات کے عملی الرغم کچھ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوا ہے جسے افعانستان کے مقامی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں سمجھنا انتہائی اہم ہے اس کے بغیرافعانستان کی موجودہ صورت حال کا تجزیہ ممکن نہیں ہو گا یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ تقریباََ چالیس سال پہلے سرد جنگ میں دو بڑی عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بننے والا ملک افعانستان اس وقت چند ملکوں کی پراکسی وار کا میدان جنگ ہے ایسی صورت میں امریکہ اپنے حریف ملکوں کیلئے کسی صورت میں میدان خالی نہیں چھوڑ سکتا لہذا اس نے دوحہ (قطر)میں مذاکرات کی میز سجائی اور طالبان اور افعانستان کا باقاعدہ سٹیک ہولڈر قرار دیا اور انہیں دوحہ میں سیاسی دفتر کھول کر دیااور طالبان کو ایک معائدے کے ذریعے کچھ مشروط پابندیوں کے ساتھ میدان میں اترنے کی اجازت دی جس کو ہمارے سادہ لوح خوش فہم مذہبی حلقے امریکہ کی شکست اور طالبان کی فتح مبین سے تعبیر کر رہے ہیں اسے فتح مکہ قرار دینے والوں کے فہم سیرت رسول ؐکا دیوالیہ پن نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کاش کہ ارباب مذہب دوحہ کے طالبان امریکہ امن معاہدہ کے ان الفاظ پر غور کرلیں جس میں کہا گیا ہے طالبان کسی فرد یا گروہ کو القاعدہ سمیت افعانستان کی سر زمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے طالبان ایسی تمام قوتوں کو واضح پیغام دیں گے کہ امریکہ مخالف کسی قوت کیلئے افعانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے طالبان اپنے کارکنوں کو ہدایات جاری کریں گے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی قوت کونہ اپنی فورسز میں بھرتی کریں گے اور نہ تربیت نہ چندہ جمع کرنے دیں گے اور نہ اپنے ہاں ٹھہرنے دیں گے طالبان‘امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کسی مخالف قوت کو ویزا‘پاسپورٹ‘سفری اجازت اور قانونی دستاویزات جاری نہیں کریں گے سوال یہ ہے کہ یہ بلا شرکت غیرے طالبان کی فتح مبین ہے یا مفادات کا تخفظ کا ایک مشترکہ منصوبہ؟یا یہ زنجیر معاہدوں میں جکڑی ہوئی طالبان کی کابل آمد اور عہد نبویؐ کے فتح مکہ کے مابین کون سا نکتہ مشترک ہے؟کیا سادگی بیان ہے کہ طالبان نے امریکہ اور اس کے اداروں‘سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘وائٹ ہاؤس‘سی آئی اے اور پیٹاگون کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور کابل پر قبضہ کرکے دنیا کو حیران کر دیا اصل بات یہ ہے کہ امریکہ نے طالبان کے بعض رہنماوں کو نہ صرف گوانتاناموبے میں ایک عرصہ رکھا بلکہ گاجر اور لاٹھی کی پالیسی کے ذریعے معاملات کو بھی آگے بڑھایا حتی کہ ملا برادر کو بھی پاکستانی جیل سے رہا کروایا پھر طالبان رہنماؤں سے سفری پابندیاں ہٹوائیں قطر جیسے امریکی اڈے میں انہیں اپنادفتر قائم کروا کر قطر حکومت سے وی آئی پی پروٹوکول لے کر دیا اشرف غنی کی اپنی ساختہ منتخب حکومت کو بھی بائی پاس کرکے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا اس کے نتیجے میں اشرف غنی حکومت سے جیلوں میں قید پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہائی دلوائی طالبان کے تازہ جنگی معرکوں میں طالبان فورسز نے امریکیوں پر اور امریکیوں نے طالبان پر کوئی گولی نہیں چلائی حتیٰ کہ امریکی فوج کے پاس تباہ کن اسلحے کے ذخائر تک طالبان کو منتقل کر دیئے گئے افغان فوج چونکہ اشرف غنی انتظامیہ سے زیادہ امریکی فوج کے ماتحت تھی
اس لئے اسے اپنے گیم پلان کے تحت سرنڈر کروادیا گیا طالبان جو کبھی چیچن مجاہدین اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے عسکریت پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دینے پر ڈٹے ہوئے تھے حتیٰ کہ اسامہ بن لادن کی میزبانی پر اصرار کے سبب انہوں نے اس خطے میں امریکہ کی براہ راست آمد کی راہ ہموار کی اور اب القاعدہ‘داعش وغیرہ سے نہ صرف تعلق نہ رکھنے کی امریکہ کو یاد دہانی کروا رہے ہیں بلکہ ان سے امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچنے کی ضمانت بھی دے رہے ہیں حیرت ہے کہ خطے کے اس ناقابل تلافی نقصان کے بعد امریکہ کے ساتھ اس کی اپنی شرائط پر کئے گئے معاہدے کو غیر معمولی حکمت اور دانشمندی کا نام دیا جا رہا ہے اس امر کے خوش آئند ہونے میں تو کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ امریکہ کی فوج بالآخر اپنے جانی اور مالی نقصانات اٹھا کر افعانستان سے نکل گئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خطے میں امریکہ کسی نہ کسی شکل میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا افعانستان کے نظم مملکت کو چلانے کیلئے پیسہ اب بھی امریکہ اور اس کے تابع عالمی ادارے ہی دیں گے اس کا انخلا سوویت یونین جیسا انخلا نظر نہیں آتاکہ وہ یہاں سے بالکل لاتعلق ہو جائے نہ صرف وہ یہاں اپنی پالیسیوں کی صورت میں رہنے پر مصر رہے گا بلکہ اس کے اتحادی بھی اس کا ہاتھ بٹاتے رہیں گے مثلاََابھی افعانستان کے دس ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے ہیں اور آئی ایم ایف اور یورپی یونین نے افعانستان کے نئے امدادی پروگرام معطل کر دیئے ہیں یہ اقدامات اس لئے بروئے کار لائے جا رہے ہیں کہ کابل میں نئی حکومت کی کوئی باضابطہ شکل بننے ہی انہیں معاشی ناکہ بندی کا احساس دلا کر اپنا مرہون منت رکھا جا سکے امریکہ ”سٹیٹس“کی تمام قوتوں میں باہم صلح کرواکے افعانستان میں اپنے سرمایہ دارانہ نظام کو تخفظ دینا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں افعانستان کے ان دھڑوں کو روس‘ چین کے خلاف استعمال کر سکے بدقسمتی سے افعانستان میں آج وہ حلقہ موجود نہیں یا منظم نہیں جو قومی اور جمہوری فکر کے ساتھ ساتھ استعمار کے عزائم کو بھی سمجھتا ہو اس لئے حالیہ اکھاڑ پچھاڑ میں کسی انقلابی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی یہاں زیادہ سے زیادہ صرف ایک حکومت بدلی ہے جبکہ نظام کی تبدیلی کی اپنی مسلمہ حکمت عملی ہوتی ہے دنیا میں آئے دن حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور ان سے پالیسیوں میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لہذا افعانستان سے متعلق خوش فہمی میں مگن رہنے سے کہیں زیادہ شعوری تجزیہ اور بصیرت پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں