رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کے مسئلے کو عالم اسلام کا نمبر ایک مسئلہ قرار دیا۔ اسلامی انقلاب کے سربراہ نے تاکید کی کہ انسانیت کو اس مسئلے پر ردعمل دکھانا چاہیے۔ اسلامی جمہوری ایران کے سپریم لیڈر نے مزید کہا کہ غزہ میں صیہونی حکومت کے اقدامات نسل کشی پر مبنی اور عظیم تاریخی المیہ ہے۔ اس مجرم حکومت اور اس کے حامیوں پر ایک عالمی عدالت میں مقدمہ چلا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ دنیا میں اقوام اور مصلحین کو چاہیے کہ وہ صیہونی مجرموں کو سزا دیئے جانے کا مطالبہ کریں، خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار میں نہ ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو بھی سزا دیئے جانے کا مطالبہ کیا جائے جو صیہونی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔بے شک اسرائیل بربریت کی ایک تاریخ رقم کر رہا ہے۔عالمی میڈیا بالخصوص مغربی میڈیا اسرائیلی جارحیت کو اسرائیل کا دفاعی حق بنا کر پیش کر رہا ہے۔حالانکہ اسرائیل ایک غیر اعلانیہ ایٹمی طاقت ہے جبکہ فلسطین کے مظلوم نہتے۔پھر دفاع کیسا اور کیونکر؟ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ اسرائیل ایک مجرم ریاست ہے جسے دنیا کے بڑے ظالموں کی پشت پناہی حاصل ہے،مگر رہبرِ اسلامی انقلاب کی اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ اسرائیلی بربریت مسلمانوں کے باہمی اختلافات کا نتیجہ ہے۔بے شک مسلم حکمران اپنی اقتدار پسندی اور اپنی بادشاہتوں کے دوام کے لیے سامراجی ایجنٹ بنے ہوئے ہیں جس کے باعث سامراج ان بادشاہتوں کو دوام دینے کے بدلے اپنے ناجائز بیٹے اسرائیل کے لیے ان بادشاہتوں سے رعائتیں لیتا ہے۔اگر سارے عرب پیدل ہی ہاتھوں میں تلواریں اٹھا کر اسرائیل کی طرف چل پڑیں تو بخدا اسرائیل گھنٹوں میں راہِ راست پر آسکتا ہے۔ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ عرب حکمرانوں کے بجائے اب عرب عوام کو اپنے مظلوم فلسطینی بہن بھائیوں کے لیے نکلنا ہو گا۔عرب عوام کو جان لینا چاہیے کہ اسرائیل اگر آج غزہ میں ایسا کر سکتا ہے تو کل ان کی بھی باری اسکتی ہے۔ کیونکہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا صہیونی ریاست اپنے سامراجی آقاؤں کی مدد سے مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرنا چاہتی ہے۔رہبرِ اسلامی انقلاب نے جن باتوں کی طرف امتِ مسلمہ کی توجہ دلائی اگر اس لمحے میں بھی مسلم حکمرانوں نے مسئلے کی سنگینی کا ادراک نہ کیا تو خدانخواستہ اس کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔غزہ میں موت زندگی پر بری طرح غالب آچکی ہے،محصور فلسطینیوں کے لیے نہ خوراک ہے نہ غذا،نہ رہائش نہ پناہ،اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بار بار اسرائیل سے جنگ بندی کی اپیل کر چکی ہے مگر اسرائیل کا جارحانہ رویہ اس عالمی ادارے کی بے بسی اور جانبداری کو بھی ظاہر کرتا ہے۔بلاشبہ اسرائیل کی جابنب سے اقوامِ عالم کے اس نمائندہ ادارے کی قراردادوں کو رد کرنا امریکہ کی اس طاقتکابھی مظہر ہے جسے’’ویٹو‘‘ کہا جاتا ہے۔اقوامِ متحدہ میں اس وقت بڑی طاقتیں اسرائیل کے حق میں متحد ہیں۔کیا مسلمان ممالک بھی اپنے نسلی و مسلکی اختلافات بھلا کر اسرائیل کے خلاف متحد ہو سکتے ہیں؟ اگر سعودی عرب،ترکی،اردن،مصراور پاکستان حماس کی عملی حمایت نہیں کر سکتے تو کیا ’’بوکوحرام سے لے کر القاعدہ ،طالبان،لشکرِ طیبہ،لشکرِ جھنگوی ‘‘ و دیگر ’’جہادپسند‘‘ تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت غزہ کا رخ نہیں کر سکتیں؟وہ مگر جن کی تربیت کی بنیاد ہی مسلمانوں کے قتلِ عام پر رکھی گئی ہو وہ کیسے آگے بڑھیں؟حقائق کو مگر ہم خواہشات کی چادر میں کیسے لپیٹ سکتے ہیں؟زمینی حقیقت تو یہی ہے کہ امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا بھر کے ظالم اسرائیلی پشت پر کھڑے ہیں۔سارے عرب ممالک بھی،بلکہ اس انتہائی تکلیف دہ صورتحال میں تو ساری عرب ریاستیں بلکہ بادشاہتیں سامراج کو اپنی اپنی وفاداری کا یقین دلانے میں لگی ہوئی ہیں۔ایسے میں یہبادشاہتیں اور مسلمانوں کو ہی قتل کرنے والی فرقہ پرست مسلح دہشت گرد تنظیمیں طاقتور امتِ واحدہ کے تصور کو بری طرح زخم زخم کر کے دشمن کی طاقت کو استحکام دینے کا سبب بن رہی ہیں۔{jcomments on}
114