145

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ

جب سے اسرائیل کی نہتے فلسطینی مظلوم عوام پر وحشیانہ بمباری‘جدید ترین ہتھیاروں کاآزادانہ استعمال‘ظلم وستم جبروتشددکی شدت دیکھنے میں آرہی ہے مظلوم مسلمانوں کوبیدردی سے شہید کیاجارہاہے مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے قتل عام کیاجارہاہے

مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کے دلخراش مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں مظلوم فلسطینیوں کواپنی زمین اپناملک جبری طور پر چھوڑنے کیلئے مجبورکیاجارہاہے

اس کے بعدسے مسلمانوں سمیت دنیابھرسے دردر دل رکھنے والے انسانوں نے اس ظلم وستم جبروتشدد اور قتل عام کے خلاف اپنی آواز بلند کی مظاہرین نے جنگ بندی کا مطالبہ کیاناحق قتل عام کی مذمت کی انسانیت پرظلم وستم پر تشویش کااظہارکیااور مظلوم مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا عملی مظاہرہ بھی کیا

اس کامیاب حکمت عملی کے بعد امت مسلمہ نے ایک بہت بڑاقدم اٹھایااور یہ مطالبہ بھی کردیا کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیاجائے

ان کامعاشی نقصان کیاجائے جب سے یہ مطالبہ سامنے آیاہے اس کے بعد سے دو قسم کے لوگ سامنے آئے ایک تو مکمل طورپر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوگئے انہوں نے ناصرف اس مطالبہ کی حمایت کی بلکہ عملی طورپراس کاثبوت بھی پیش کیاجبکہ دوسرے قسم کہ وہ لوگ بھی سامنے آئے

جو اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ مہم میں روکاوٹ بنتے ہوئے طرح طرح کے بے بنیاددلائل دے رہے ہیں ان کاکہناہے بائیکاٹ کیوں ضروری ہے بائیکاٹ سے کیاہوگا دیگر کفار سے بھی ہم خریدوفروخت کرتے ہیں اگردیگرسے تجارت کرتے ہیں تواس ظالم وجابر قاتل ودہشت گرداسرائیل سے کرنے میں حرج کیاہے

اب بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف بائیکاٹ کفار کی مصنوعات کی وجہ سے نہیں کررہے کیونکہ اسلام نے غیر مسلم سے تجارتی معاملات شرعی احکامات کومدنظررکھتے ہوئے کرنے کی اجازت دی ہے ہم یہاں ظالم وقاتل سے نفرت کااظہارکررہے ہیں ہم ظالم وقاتل سے اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں

ظالم وقاتل سے بائیکاٹ کرکہ اس کی عقل ٹھکانے لگانے کیلئے اسے سبق سیکھنا چاہتے ہیں اور ان سب باتوں سے یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں ہم مظلوم کے ساتھ ہیں ظالم کے ساتھ نہیں اگر اس بات کو شرعی طورپردیکھاجائے تویہ بات واضح ہے

کہ کسی بھی دور میں کسی بھی قوم وملت کی سیاسی عسکری قیادت کی ترقی میں بنیادی کردار اس کی معاشی صورتحال کاہوتاہے اگراس کی معیشت مضبوط ہوگی تووہ ملک بھی مضبوط ہوگا اس کی قیادت بھی مضبوط ومحفوظ ہوگی اور وہ خودمختار فیصلے کریں گئے اس بات سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتا

کہ اگر کسی قوم کو کمزور کرناہو،اس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکرناہوتو تواس کا معاشی بائیکاٹ کرکہ اس کی معیشت کمزور کردی جائے اس کا سب سے مؤثر طریقہ یہی ہے کہ اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیاجائے ساتھ اس کے ساتھ ان کمپنیوں کابھی بائیکاٹ کیاجائے جو اس وقت فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی بجائے

ان فلسطینی مسلمان کا قتل عام کرنے والے اسرائیل جیسے دہشت گرد ملک کے ساتھ کھڑی ہیں اگر اس معاشی صورتحال کاجائزہ لیا جائے تواس وقت نبی کریم روف الرحیم نے شام سے مکہ کے درمیان چلنے والے کفار کے تجارتی قافلوں کی آمد و رفت کازور توڑنے کے لئے یہی حکمت عملی اپنائی اسی طرح نبی کریم روف الرحیم نے بنو نضیر کا محاصرہ کیا

اسی پر عمل کرتے ہوئے حضرت ثمامہ نے کفار پراناج کی فروخت بند کردی صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابوجندل اور صلح حدیبیہ کے بعد حضرت ابو بصیر نے مکہ اور شام کے درمیان پڑاؤ ڈالا کفار کے قافلے کاگزرنامشکل کردیااسی سلسلہ کی ایک کڑی برصغیر میں بھی ملتی ہے اب اسی سلسلہ کو قائم رکھتے ہوئے موجودہ دور میں اسرائیل اور اسرائیل کو سپوٹ کرنیوالی تمام کمپنیوں کو بائیکاٹ کیاجانا

انتہائی ضروری ہے لیکن جو طریقے ہمارے ہاں بائیکاٹ کے رائج ہیں وہ کسی طور بھی درست نہیں یہاں ان کی مصنوعات خرید کر ان کو ضائع کیاجارہاہے اس کو ضائع کرتے وقت ویڈیوز بنارہے ہیں اور سوچ رہے ہیں بہت اچھا کام کررہے ہیں حالانکہ یہ بات نہیں سوچ رہے

جب ان کی مصنوعات خرید لی ان کو نفع پہنچ چکا اب ضائع کریں یا کچھ اور ان کو کوئی نقصان نہیں ان کو نقصان تب ہوگاجب ان کی مصنوعات خریدنے کی بجائے ملکی وقومی مصنوعات کوترجیح دی جائے گی اسی طرح توڑ پھوڑ کرنایاکسی کو نقصان پہنچانایہ بھی درست نہیں کیونکہ بائیکاٹ کا مطلب خریدوفروخت بندکرناہوتاہے

کسی کوجانی نقصان پہنچاناہرگزنہیں یہ اقدام اٹھاناوقت کی بھی اہم ضرورت ہے اور فلسطین کی مظلوم عوام کے ساتھ ہمدردی جبکہ اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے نفرت کی علامت بھی ہے اس بائیکاٹ مہم میں بنیادی کردار تاجر حضرات اداء کرسکتے ہیں

کیونکہ مصنوعات کی خریدوفروخت تاجر حضرات کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اگرمسلمان تاجرحدیث شریف کوسامنے رکھتے ہوئے مظلوم مسلمانوں کاساتھ دیں تو خیروبرکت کے ساتھ ساتھ اجروثواب بھی کماسکتے ہیں نبی اکرم شفیع اعظم نے ارشادفرمایامسلمان ایک جسم کی مانند ہیں

اب اگر فلسطین کے مظلوم مسلمان تکلیف میں ہیں توہمیں بھی اس تکلیف کواپنی تکلیف سمجھتے ہوئے ان مظلوموں کے قاتل سے ہرقسم کاتعلق توڑناہوگاہم میں سے ہر ایک اپناکرداراداء کرے جو جس جگہ آوازبلندکرسکتاہے کرے جو ان کا معاشی بائی کاٹ کرسکتاہے اسے ضرورکرناچاہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں