156

ارشمان قتل‘پولیس ملزمان کی گَرد کو نہ پہنچ سکی

موجودہ SPصدر ڈویژن کو رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونا چاہیے تھا یا قاتلوں کو زمین کہ تہہ سے نکال لانا چاہیے لیکن تاحال قاتل گرفتار نہ ہوسکے لگتا ہے ننھے ارشمان کی فائل دفاتر کی مٹی دھول میں دب جائیگی وطن عزیز میں انصاف کا نظام نرالا ہے انصاف فراہمی داد رسی کے لیے جو دینے کے لیے قائم ادارے بھاری تنخواہیں، مراعات لینے کے باوجود وسائل کی کمی کے شکوے شکایات کرتے ہیں مگر کارکردگی اور احتساب کی بات کی جائے تو نہ محکمانہ طور پر موثر احتساب ہے نہ ہی منتخب نمائندے اداروں کی ناقص کارکردگی پر احتساب کا مؤثر نظام کھڑا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں راولپنڈی پولیس کی موجودہ کمانڈ کی گزشتہ دو سالہ کارکردگی پر لکھنے کو بہت کچھ ہے

مگر آج موجودہ SPصدر ڈویژن راولپنڈی پولیس محمد نبیل کھوکھر کی سربراہی میں صدر ڈویژن کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں، SPنبیل کھوکھر 21 جنوری 2023 کو ایک قتل کے مقدمے میں ناقص سپروژن باعث ان کے عہدے سے ہٹا دیے گئے تھے اس وقت کے IG انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس محمد عامر ذوالفقار خان تھے اور وجہ تھی ایک بیگناہ شہری کو قتل کے مقدمہ میں ملوث کرنے پر ناقص سپروژن، پولیس کے امور میں کمزور کمان ہونے کی بنیاد پر انہیں سنٹرل پولیس آفس لاہور کلوز کردیا تھا

اس میں اس وقت کے SDPo صدر سرکلSHOتھانہ روات ندیم ظفر کو بھی معطل کیا گیاتھاجبکہ دیگر افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے۔ یہ تمام اقدامات پولیس کے اختیارات کے غلط استعمال اور ناقص تفتیش کی بنیاد پر کیے گئے تھے لیکن بھلا ہو وطن عزیز کی قانونی موشگافیوں کی جوبااثر افراد کے لیے مکڑی کے جالے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی اور اوپر سے سیاسی مداخلت کہ نبیل کھوکھر نے آئی جی پنجاب عامر ذوالفقار خان کے تبدیل ہونے بعد اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے دوبارہ راولپنڈی بطور SPصدر بھی تعیناتی حاصل کرلی یوں تو بہت سے برننگ ایشوز ہیں جن پر بات کی جاسکتی ہے

کارکردگی ماپی جاسکتی ہے لیکن اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف جس نے قلم اٹھانے کے لیے مجبورکیا،واقعہ ہے 23نو مبر 2024 کاجب تقر یباسا ڑ ھے چار سال کے گول مٹول خوبصورت سے چہرے والے ارشمان ولد محمد اختر جو کھنہ روڈ ترلائی اسلام آباد کا رہائشی روات کی حدود موہڑ ہ گاڑ،ڈاک خانہ خاص جتھہ ہتھیال شادی کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے اپنی فیملی کے ہمراہ آیا،کسی کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جہاں ایک طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں وہاں دوسری طرف کسی کے لیے موت کا سامان ہے

قدرت کے رنگ بھی نرالے ہیں اسی شادی کی تقریب میں ننھا ارشمان پراسرار طور غائب ہوگیا، گھر والوں کی بروقت اطلاع کے باوجود پولیس کی روایتی بے حسی کھل کر سامنے آئی جب روات پولیس نے بچے کو تلاش کرنے کے بجائے ڈھنگ ٹپاو پالیسی پر زور رکھا، لاپتہ بچہ باوجود تلاش کے ورثاء کونہ مل سکا،والدین صدمہ سے نڈھال در بدر مارے مارے پھرتے رہے،بچے کا والدمحمد اختر کینسر کا مریض تھا اس کی تکلیف میں بچے کی گمشدگی نے مزید اضافہ کردیا اور بچے کی گمشدگی کاصدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے 27دسمبرکودنیا سے چل بسا موجودہ SP صد ر نبیل کھوکھر سمیت سینئر افسران نے حسب روایات موقع پر پہنچے روایتی پریس ریلیز جاری ہوئی ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بلند بانگ دعوے ہوئے لیکن وقت گزر گیاہوتا یہ کہ قاتلوں کو گرفتار کیا جاتا اور انہیں کیفر کردارتک پہنچایا جاتا ایک وقت آیا کہ تفتیشی کی جانب سے بچے کی والدہ پریہ الزام لگا تم جھوٹ بول رہی ہو اپنا نکاح نامہ بچے کا برتھ سرٹیفکیٹ پیش کرو‘بچہ شادی کی تقریب میں آیا ہی نہیں تھابچہ تم لوگوں نے خود غائب کیا ہے

ایک طرف بچے کی گمشدگی اورخاوند کی موت کا غم لینے والی بیوی اپنا رشتہ ثابت کرنے کے لیے کبھی فارم ”ب“لیکر آتی تو کبھی نکاح نامہ، اسی کشمکش میں 18جنوری 2025 کو بچے کی لاش موہڑہ گاڑ کے ہی جنگل میں ایک تالاب سے ملی، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچہ 10سے 12دن تک پانی میں رہا اس سے یہ سوال پیدا ہوگیا کہ بچہ تقریبا ڈیڑھ ماہ کے لگ بھگ بچہ اغوا کاروں کے پاس زندہ رہا اور اسی علاقہ میں تھالیکن اندھا قانون جو ازل سے ہی اندھا ہے نے کوئی کوشش نہ کی بچے کو تلاش کرنے کی اور ظالموں نیبچے کا گلا دبا کر مارا دیاعینی شاہدین کے مطابق بچے کی ایک آنکھ نکالی گئی آدھا چہرہ بھی جلا ہوا تھا ایک طرف تو والدین کے لیے یہ لمحہ تو عزاب بنارہاتو دوسری طرف موہڑہ گاڑ کے رہائشیوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی تھی تھانہ روات پولیس نے ارشمان کے قاتلوں کو پتہ نہیں گرفتار کرنا ہے

یا نہیں لیکن گاڑ کے رہائشیوں کی چھترول معمول بنا رہا اس وقت کے SHO روات کا دعوی تھا کہ موجودہ CPOراولپنڈی نے حکم دے رکھا کہ پورے گاوں کے فنگر پرنٹس لیں دوسری طرف موجودہ SPصدر نبیل کھوکھر نے اس وقت اپنا موقف دیا تھا کہ وقوعہ والے دن علاقہ میں سروس نہیں تھی جسکی وجہ سے ہم کیس کے اہم معاملات کو ٹریس نہیں کرپارہے تفتیش کے نام پربے گناہوں کی گرفتاریاں ہوئی پورے گاوں نے رضا کارانہ طور پرفنگر پرنٹ اور ڈی این اے ٹیسٹ سمیت اپنے آپ کو تفتیش کے اپنے اپکو پیش کیا لیکن تاحال ملزمان گرفتار نہ ہوسکے اس پر نہ تو پنجاب کی ماں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نوٹس لیا؟؟؟
اور نہ اب تک قاتل گرفتار ہوسکے؟؟
٭معصوم بچے اور اسکی والدہ کو انصاف نہ مل سکا؟موضع گاڑ کے بے گناہ رہائشیوں کو پولیس کی بے رحم چھترول ہوئی اسکا زمہ دار کون تھا یہ سب سوال ہیں جن پر موجودہ SPصدر ڈویژن کو رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونا چاہیے تھا یا قاتلوں کو زمین کہ تہہ سے نکال لانا چاہیے لیکن تاحال قاتل گرفتار نہ ہوسکے لگتا ہے ننھے ارشمان کی فائل دفاتر کی مٹی دھول میں دب جائیگی لیکن ایک عدالت اللہ کی ہے جہان کل سب نے جانا ہے تو وہاں ارشمان کی والدہ کا ہاتھ ہوگا اور گریبان کس کا ہوگا یہ سوچیں اللہ اس پکڑ سے بچائے جب ہماری سفارشیں ختم ہوجائینگی اور ہم بے یارومددگارکھڑے ہونگے ارشمان کی والدہ کی طرح؟

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں