108

عوام اور مشکلات

قارئین! ہفت روزہ اخبار پنڈی پوسٹ میں ایک خط جو کہ ’’چوہدری نثار علی خان اور رابطہ کمیٹیاں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا پڑھا اور بہت سے یار دوستوں نے اسے موضوع بنانے اور حقیقت واضح کرنے کی ہدایات دیں اور کچھ حقیقت پر مبنی لوگوں کو درپیش مسائل اور کی گئی ذیادتیوں کی مختلف کہانیاں بھی سنائیں جو کہ عام آدمی

جس کا کوئی سفارشی یا وسیلہ نہیں اسے ہمیشہ درپیش رہتی ہیں کیونکہ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں نہ ہی کسی کو کسی کا ڈر ہے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس موضوع پر لکھنا ہی اصل میں غریب عوام کی آواز کو بلند کر کے صاحب موصوف تک پہنچانا ہی اصل میں خدمت خلق ہے۔حلقہ NA52جو کہ عرصہ دراز سے چوہدری نثار علی خان کے زیر سایہ ہے بعض اوقات اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں مگر عوام تو عوام ہی ہیں سو اچھے برے دن گزار رہے ہیں ۔خط کے قلم کار نے چوہدری نثار علی خان اور ان کی بنائی گئی رابطہ کمیٹیوں کے کردار کی شکائیت کی جو کہ حقیقت ہے اور بہت سے غریب لوگ ان سے نالاں ہیں۔اگر آپ پورے حلقے کا جائزہ لیں تو بے شمار ایسے قصے اور واقعات پڑھنے کو ملیں گے جو کہ غریب،بے سہارا،بے اثر جو کہ کسی کھڑپینچ، بااثر ،دولت مند اور نامزد صاحب اختیار سے کوئی رشتہ داری یا تعلقات نہ رکھتے ہیں اور ایک خاموش ووٹر کے طور پر ووٹ دینے کے بعد کامیابی کے لیے دن رات دعائیں مانگتے رہتے ہیں اور کامیابی پر اپنے طور پر خوشی بھی منا لیتے ہیں شاید اس لیے کہ موصوف ایک اچھے کردار کے مالک،بے داغ ماضی (جس کی مخالف بھی تصدیق کرتے ہیں) سچے، نمازی پرہیز گار،عوام دوست اور سب سے بڑھ کر کہ انصاف پسند اور کسی کے ساتھ ہونے والی ذیادتی کو برداشت نہ کرنے کی باز گشت جو کہ جلسے جلوسوں اور میٹینگز میں اکثر سنائی دیتی ہے ان کی عام صفات ہیں۔تو پھر یہ عوام کی طرف سے واویلا کیسا !کیا واقعی عوام کے ساتھ ظلم و ذیادتی ہو رہی ہے اگر ہو رہی ہے تو کیوں !اور اس کا سدباب کون اور کیسے کریگا یہ وہ سوال ہیں جو کہ عام آدمی کی زبان پر ہیں۔حلقہ NA52جو کہ ذیادہ تر دیہات پر مشتمل ہے لوگوں کا ذریعہ آمدن زمینداری،ملازمت اور مزدوری ہے ذیادہ تر غریب لوگ اور متوسط گھرانے ہیں جو کہ بمشکل گزارے کرتے ہیں مگر کردار کے لحاظ سے سچے، پکے، باکردار، وفادار، بے لوث اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والے لوگ ہیں جو کہ ہر مشکلات سہنے کے باوجود ساتھ نہیں چھوڑتے۔ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور خاص کر نا انصافی اور کرپشن جب حد سے بڑھ جائے تو عوام ایک بار ذمہ دار شخصیت تک اپنی آواز پہنچانے کی کوشش کرتی ہے یا پھرکسی مسیحا کی تلاش کرتے ہیں جو انھیں انصاف اور کرپشن سے پاک معاشرہ دے سکے اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا ازالہ کر سکے۔قارئیں کرام !مسائل زدہ شخص کو نہ تو سڑک سے غرض ہوتی نہ نہ پلی یا گلی نالی سے اسے تو اپنے مسائل کے حل اور انصاف کی تلاش ہوتی ہے موجودہ دور میں اداروں اور سرکاری اہلکاروں سے انصاف کی توقع رکھنا یا جائز کام بغیر رشوت یا سفارش کے کروانا انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن ہے خاص کر تھانہ پولیس اور پٹواری تو بے تاج بادشاہ ہیں کیونکہ سیاسی اثر ورسوخ سے تعیناتی، بااثر لوگوں سے تعلقات،اہم شخصیات کی پشت پناہی کی وجہ سے عام آدمی کا کام کرنا تو درکنار ،بات کرنا بھی عبث سمجھتے ہیں ایسے میں عام آدمی کو کیا توقعات ہو سکتی ہیں کہ اس کو اپنے ذاتی اور جائز کاموں کے لیے کہاں کہاں در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں گی۔تھانے میں درخواست دینے یا مقدمہ کے اندراج سے لیکر ذاتی جدی جائیداد کے فرد کے حصول تک جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
بلکہ تھانوں میں شریف لوگ جانے سے کتراتے ہیں اور شریف سفید پوش افراد کی تضحیک کی جاتی ہے اور پٹواری کے دفتر کے دفتر کے باہر گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ پٹواری کو تلاش کرنا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے رشوت کا یہ حال ہے کہ ہر کام کے ریٹ مقرر ہیں اس کے بغیر کام نا ممکن ہے کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی کسی سے نہیں ڈرتا کیونکہ ہر اہلکار با اثر ہے اور اعلی شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے اور بسا اوقات شکائیت کرنے والے کو رسوائی کے ساتھ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور مدتوں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے یہ وہ کام ہیں جو کہ جائز اور عام آدمی کا حق ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اپنا حق لینے کے لیے بہت کچھ گنواناں پڑتا ہے۔رہی بات کسی کے ساتھ نا انصافی یا حق تلفی کی تو اس کے لیے مدتوں اور نسل در نسل تگ و دو اور انتظار کی ضرورت ہے وہ بھی مقدر سے ان تمام معمولی باتوں کے ازالے کے لیے حلقے کے منتخب MNAاور MPAحضرات کی ذمہ داری بنتی ہے
کہ وہ اپنے حلقے میں امن و امان اورعوام کو انصاف مہیا کریں جس کے لیے حلقے میں چند کھڑپینچ قسم کے با اثر افراد کو نامزد کیا جاتا ہے یا کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں جو کہ بظاہر عوام کو ریلیف دینے اور ان کے جائز کام کروانے کی ذمہ دار ہوتی ہیں مگر بسا اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ افراد اپنے ذاتی کاموں سے ہی فارغ نہیں ہوتے اور عام غریب آدمی کو ترجیح ہی نہیں دیتے نہ جانے کیوں ایسا ہوتا ہے شاید کوئی مجبوری ہو یا فائدے نقصان کا چکر۔اور یہ لوگ بھی حقیقت کے بر عکس سفارش پر کاروائی کرتے ہیں اور کچھ حلقوں میں ایسا سرے سے ہی نہیں ہوتا ۔حالانکہ اس حلقے میں موجودہMPAجو کہ اایک ایماندار،دیانتدار ،ذمہ دار اور خاصے سرگرم ہیں مگر پھر بھی عام آدمی کی شکائیت دور نہیں کی جا سکتی کیا ان کے دائرہ اختیار میں کچھ نہیں یا مصلحتاً خاموش ہیں اور کچھ نہیں تو کیا ان کرپٹ اہلکاروں کے بارے میں چوہدری نثار علی خان کو بتا بھی نہیں سکتے تا کہ وہی ان سے باز پرس کر سکیں اور چوہدری نثار علی خان جو کہ حلقے کی ہر خاص و عام بات سے باخبر ہوتے ہیں ان حالات سے بے خبر کیوں ہیں اب تو ایک سیاسی جماعت کے امیدوار بر ملا جلسوں میں ان خامیوں کا اظہار کرتے ہوئے استانیوں کے نا حق تبادلوں، تھانوں میں ہونے والی نا انصافیوں اور پٹواری کلچر کی من مانیوں کو بے نقاب کر رہے ہیں چونکہ ان تمام اچھائیوں برائیوں کا اثر چوہدری نثار علی خان کی ذات پر پڑتا ہے جو کہ ایک با کردار شخصیت ہیں اور لوگ ان کی ذات پر اعتماد کرتے ہیں بظاہر ان سے کسی کو کوئی گلہ شکوہ نہیں مگر ان کے کرتے دھرتے عوام میں بے چینی پھیلانے کا سبب ہیں۔اور یہ لوگ صرف اپنے فائدے نقصان میں لگے ہوئے ہیں وہ لوگ جو چوہدری نثار علی خان سے کبھی ملے بھی نہیں کبھی قریب سے دیکھا بھی نہیں کبھی کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا کبھی کچھ نہیں مانگا مگر بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور بن مانگے ووٹ دیتے ہیں اور دن رات کامیابی کے لیے دعا گو رہتے ہیں اور جیت پر اپنے طور پر خوشی بھی مناتے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ وہ ایک خاموش اور غریب بے اثر ووٹر ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر شخص کو چاہے وہ ووٹر ہے یا نہیں انصاف ملنا چاہیے۔جس کا کہ با ر بار چوہدری نثار ہر جلسے میں ذکر کرتے ہیں مگر ایک مشکل یہ ہے کہ ہر شخص کی ان تک رسائی مشکل بلکہ نا ممکن ہے نہ ہی ہر شخص خط لکھ سکتا ہے بے شمار لوگوں کے پاس رابطے کا کوئی ایڈریس نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ بنایا گیا ہے کہ ایک عام غریب شخص کی درخواست بغیر کسی جدو جہد اور رکاوٹ کے ان تک پہنچ سکے ان تمام باتوں کا حل چاہیے جو کہ صرف اور صرف چوہدری نثار علی خان ہی کر سکتے ہیں تا کہ ایک عام آدمی بلکہ حلقے کا ہر آدمی جس طرح ان پر اعتماد کرتا ہے وہ اعتماد بحال رہے اور لوگوں کو بر وقت انصاف اور ان کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔اور اہلکاروں کو بھی ڈر ہو کہ شکائیت کی صورت میں سخت باز پرس ہوگی اور ذیادتی کی صورت میں سزا ملے گی۔ چوہدری نثار علی خان سے توقعات وابستہ کی جاتی ہیں کہ وہ اپنی اعلی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہر گاؤں،ہر تھانے اور حلقہ پٹوار کی سطح پر شکائیت سننے یا درخواستوں کی وصولی کے لیے علاقے کے ایماندار،عوام دوست اور اچھی شہرت رکھنے والے افراد کو نامزد کر کے عوام کی توقعات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ عوام دوستی انصاف مسائل کے حل اور اپنے دعووں کو عملی جامہ پہنائیں گے تا کہ غریب عوام ان پر پہلے سے ذیادہ اعتماد کر سکیں اور ہمیشہ ساتھ نبھانے اور وفاداری کا ثبوت دے سکیں عوام فی الحال انتظار فرمائیں‘‘ شاید۔۔۔؟

 

›Ž£¤ Ú ¦š„ Ž¢¦  Š‚Ž ƒ Œ¤ ƒ¢’… Ÿ¤¡ ¤œ Š– ‡¢ œ¦ þþˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ¢Ž Ž‚–¦ œŸ¤…¤¡ýý œ¥ ˜ ¢  ’¥ “£˜ ¦¢ ƒ§ ¢Ž ‚¦„ ’¥ ¤Ž ‹¢’„¢¡  ¥ ’¥ Ÿ¢•¢˜ ‚  ¥ ¢Ž ‰›¤›„ ¢•‰ œŽ ¥ œ¤ ¦‹¤„ ‹¤¡ ¢Ž œˆ§ ‰›¤›„ ƒŽ Ÿ‚ ¤  ž¢¢¡ œ¢ ‹Žƒ¤“ Ÿ’£ž ¢Ž œ¤ £¤ ¤‹„¤¢¡ œ¤ ŸŠ„žš œ¦ ¤¡ ‚§¤ ’ £¤¡ ‡¢ œ¦ ˜Ÿ ³‹Ÿ¤ ‡’ œ œ¢£¤ ’šŽ“¤ ¤ ¢’¤ž¦  ¦¤¡ ’¥ ¦Ÿ¤“¦ ‹Žƒ¤“ Ž¦„¤ ¦¤¡ œ¤¢ œ¦ œ¢£¤ œ’¤ œ¢ ƒ¢ˆ§ ¥ ¢ž  ¦¤¡  ¦ ¦¤ œ’¤ œ¢ œ’¤ œ ŒŽ ¦¥ ’¢ˆ ‚ˆŽ œ¥ ‚˜‹ š¤”ž¦ œ¤ œ¦ ’ Ÿ¢•¢˜ ƒŽ žœ§  ¦¤ ”ž Ÿ¤¡ ™Ž¤‚ ˜¢Ÿ œ¤ ³¢ œ¢ ‚ž ‹ œŽ œ¥ ”‰‚ Ÿ¢”¢š „œ ƒ¦ ˆ  ¦¤ ”ž Ÿ¤¡ Š‹Ÿ„ Šž› ¦¥ó‰ž›¦  NA52‡¢ œ¦ ˜Ž”¦ ‹Ž ’¥ ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  œ¥ ¤Ž ’¤¦ ¦¥ ‚˜• ¢›„ ’ Ÿ¤¡ „‚‹¤ž¤¡ ¦¢„¤ Ž¦¤ ¦¤¡ ŸŽ ˜¢Ÿ „¢ ˜¢Ÿ ¦¤ ¦¤¡’¢ ˆ§¥ ‚Ž¥ ‹  Ž Ž¦¥ ¦¤¡ óŠ– œ¥ ›žŸ œŽ   ¥ ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ¢Ž   œ¤ ‚ £¤ £¤ Ž‚–¦ œŸ¤…¤¢¡ œ¥ œŽ‹Ž œ¤ “œ£¤„ œ¤ ‡¢ œ¦ ‰›¤›„ ¦¥ ¢Ž ‚¦„ ’¥ ™Ž¤‚ ž¢   ’¥  ž¡ ¦¤¡óŽ ³ƒ ƒ¢Ž¥ ‰ž›¥ œ ‡£¦ ž¤¡ „¢ ‚¥ “ŸŽ ¤’¥ ›”¥ ¢Ž ¢›˜„ ƒ§ ¥ œ¢ Ÿž¤¡ ¥ ‡¢ œ¦ ™Ž¤‚í‚¥ ’¦Ží‚¥ †Ž  ‡¢ œ¦ œ’¤ œ§ƒ¤ ˆí ‚†Ž í‹¢ž„ Ÿ ‹ ¢Ž  Ÿ‹ ”‰‚ Š„¤Ž ’¥ œ¢£¤ Ž“„¦ ‹Ž¤ ¤ „˜ž›„  ¦ Žœ§„¥ ¦¤¡ ¢Ž ¤œ ŠŸ¢“ ¢¢…Ž œ¥ –¢Ž ƒŽ ¢¢… ‹¤ ¥ œ¥ ‚˜‹ œŸ¤‚¤ œ¥ ž¤¥ ‹  Ž„ ‹˜£¤¡ Ÿ „¥ Ž¦„¥ ¦¤¡ ¢Ž œŸ¤‚¤ ƒŽ ƒ ¥ –¢Ž ƒŽ Š¢“¤ ‚§¤ Ÿ  ž¤„¥ ¦¤¡ “¤‹ ’ ž¤¥ œ¦ Ÿ¢”¢š ¤œ ˆ§¥ œŽ‹Ž œ¥ Ÿžœí‚¥ ‹™ Ÿ•¤ ⇒ œ¤ ŸŠžš ‚§¤ „”‹¤› œŽ„¥ ¦¤¡á ’ˆ¥í  Ÿ¤ ƒŽ¦¤ Ží˜¢Ÿ ‹¢’„ ¢Ž ’‚ ’¥ ‚§ œŽ œ¦  ”š ƒ’ ‹ ¢Ž œ’¤ œ¥ ’„§ ¦¢ ¥ ¢ž¤ ¤‹„¤ œ¢ ‚Ž‹“„  ¦ œŽ ¥ œ¤ ‚ “„ ‡¢ œ¦ ‡ž’¥ ‡ž¢’¢¡ ¢Ž Ÿ¤…¤  Ÿ¤¡ œ†Ž ’ £¤ ‹¤„¤ ¦¥   œ¤ ˜Ÿ ”š„ ¦¤¡ó„¢ ƒ§Ž ¤¦ ˜¢Ÿ œ¤ –Žš ’¥ ¢¢¤ž œ¤’ Úœ¤ ¢›˜¤ ˜¢Ÿ œ¥ ’„§ —žŸ ¢ ¤‹„¤ ¦¢ Ž¦¤ ¦¥ Ž ¦¢ Ž¦¤ ¦¥ „¢ œ¤¢¡ ځ¢Ž ’ œ ’‹‚‚ œ¢  ¢Ž œ¤’¥ œŽ¥ ¤¦ ¢¦ ’¢ž ¦¤¡ ‡¢ œ¦ ˜Ÿ ³‹Ÿ¤ œ¤ ‚  ƒŽ ¦¤¡ó‰ž›¦ NA52‡¢ œ¦ ¤‹¦ „Ž ‹¤¦„ ƒŽ Ÿ“„Ÿž ¦¥ ž¢¢¡ œ Ž¤˜¦ ³Ÿ‹  Ÿ¤ ‹Ž¤íŸžŸ„ ¢Ž Ÿ‹¢Ž¤ ¦¥ ¤‹¦ „Ž ™Ž¤‚ ž¢ ¢Ž Ÿ„¢’– §Ž ¥ ¦¤¡ ‡¢ œ¦ ‚Ÿ“œž Ž¥ œŽ„¥ ¦¤¡ŸŽ œŽ‹Ž œ¥ ž‰— ’¥ ’ˆ¥í ƒœ¥í ‚œŽ‹Ží ¢š‹Ží ‚¥ ž¢† ¢Ž ¦Ÿ¤“¦ ’„§  ‚§ ¥ ¢ž¥ ž¢ ¦¤¡‡¢ œ¦ ¦Ž Ÿ“œž„ ’¦ ¥ œ¥ ‚¢‡¢‹ ’„§  ¦¤¡ ˆ§¢„¥ó¦Ž ˆ¤ œ¤ ¤œ ‰‹ ¦¢„¤ ¦¥ ¢Ž ‚Ž‹“„ œ¤ ‚§¤ ¤œ ‰‹ ¦¢„¤ ¦¥ ¢Ž Š” œŽ    ”š¤ ¢Ž œŽƒ“  ‡‚ ‰‹ ’¥ ‚§ ‡£¥ „¢ ˜¢Ÿ  ¤œ ‚Ž Ÿ¦ ‹Ž “Š”¤„ „œ ƒ ¤ ³¢ ƒ¦ ˆ ¥ œ¤ œ¢““ œŽ„¤ ¦¥ ¤ ƒ§Žœ’¤ Ÿ’¤‰ œ¤ „ž“ œŽ„¥ ¦¤¡ ‡¢  §¤¡  ”š ¢Ž œŽƒ“  ’¥ ƒœ Ÿ˜“Ž¦ ‹¥ ’œ¥ ¢Ž   œ¥ ’„§ ¦¢ ¥ ¢ž¤    ”š¤¢¡ œ ž¦ œŽ ’œ¥ó›Ž£¤¡ œŽŸ ÚŸ’£ž ‹¦ “Š” œ¢  ¦ „¢ ’œ ’¥ ™Ž• ¦¢„¤  ¦  ¦ ƒž¤ ¤ ž¤  ž¤ ’¥ ’¥ „¢ ƒ ¥ Ÿ’£ž œ¥ ‰ž ¢Ž  ”š œ¤ „ž“ ¦¢„¤ ¦¥ Ÿ¢‡¢‹¦ ‹¢Ž Ÿ¤¡ ‹Ž¢¡ ¢Ž ’ŽœŽ¤ ¦žœŽ¢¡ ’¥  ”š œ¤ „¢›˜ Žœ§  ¤ ‡£ œŸ ‚™¤Ž Ž“¢„ ¤ ’šŽ“ œ¥ œŽ¢   „¦£¤ Ÿ“œž ‚žœ¦   ŸŸœ  ¦¥ Š” œŽ „§ ¦ ƒ¢ž¤’ ¢Ž ƒ…¢Ž¤ „¢ ‚¥ „‡ ‚‹“¦ ¦¤¡œ¤¢ œ¦ ’¤’¤ †Ž ¢Ž’¢Š ’¥ „˜¤ „¤í ‚†Ž ž¢¢¡ ’¥ „˜ž›„큦Ÿ “Š”¤„ œ¤ ƒ“„ ƒ ¦¤ œ¤ ¢‡¦ ’¥ ˜Ÿ ³‹Ÿ¤ œ œŸ œŽ  „¢ ‹Žœ Ž 킁„ œŽ  ‚§¤ ˜‚† ’Ÿ‡§„¥ ¦¤¡ ¤’¥ Ÿ¤¡ ˜Ÿ ³‹Ÿ¤ œ¢ œ¤ „¢›˜„ ¦¢ ’œ„¤ ¦¤¡œ¦ ’ œ¢ ƒ ¥ „¤ ¢Ž ‡£ œŸ¢¡ œ¥ ž¤¥ œ¦¡ œ¦¡ ‹Ž ‚‹Ž œ¤ …§¢œŽ¤¡ œ§ ¤ ƒ¤¡ ¤ó„§ ¥ Ÿ¤¡ ‹ŽŠ¢’„ ‹¤ ¥ ¤ Ÿ›‹Ÿ¦ œ¥  ‹Ž‡ ’¥ ž¤œŽ „¤ ‡‹¤ ‡£¤‹‹ œ¥ šŽ‹ œ¥ ‰”¢ž „œ ‡¢£¥ “¤Ž ž ¥ œ¥ Ÿ„Ž‹š ¦¥ó
‚žœ¦ „§ ¢¡ Ÿ¤¡ “Ž¤š ž¢ ‡ ¥ ’¥ œ„Ž„¥ ¦¤¡ ¢Ž “Ž¤š ’š¤‹ ƒ¢“ šŽ‹ œ¤ „•‰¤œ œ¤ ‡„¤ ¦¥  ¢Ž ƒ…¢Ž¤ œ¥ ‹š„Ž œ¥ ‹š„Ž œ¥ ‚¦Ž § …¢¡  „—Ž œŽ  ƒ„ ¦¥ ‚žœ¦ ƒ…¢Ž¤ œ¢ „ž“ œŽ  ‚§¤ ¤œ ’ ¤  Ÿ’£ž¦ ¦¥  Ž“¢„ œ ¤¦ ‰ž ¦¥ œ¦ ¦Ž œŸ œ¥ Ž¤… Ÿ›ŽŽ ¦¤¡ ’ œ¥ ‚™¤Ž œŸ   ŸŸœ  ¦¥ œ¢£¤ ƒ¢ˆ§ ¥ ¢ž  ¦¤¡ œ¢£¤ œ’¤ ’¥  ¦¤¡ ŒŽ„ œ¤¢ œ¦ ¦Ž ¦žœŽ ‚ †Ž ¦¥ ¢Ž ˜ž¤ “Š”¤„ œ¤ ƒ“„ ƒ ¦¤ ‰”ž ¦¥ ¢Ž ‚’ ¢›„ “œ£¤„ œŽ ¥ ¢ž¥ œ¢ Ž’¢£¤ œ¥ ’„§ ž¤ ¥ œ¥ ‹¤ ¥ ƒ ‡„¥ ¦¤¡ ¢Ž Ÿ‹„¢¡ ŠŸ¤¦ ‚§„  ƒ„ ¦¥ ¤¦ ¢¦ œŸ ¦¤¡ ‡¢ œ¦ ‡£ ¢Ž ˜Ÿ ³‹Ÿ¤ œ ‰› ¦¥ ŸŽ žŸ¤¦ ¤¦ ¦¥ œ¦ ƒ  ‰› ž¤ ¥ œ¥ ž¤¥ ‚¦„ œˆ§  ¢ ¡ ƒ„ ¦¥óŽ¦¤ ‚„ œ’¤ œ¥ ’„§    ”š¤ ¤ ‰› „žš¤ œ¤ „¢ ’ œ¥ ž¤¥ Ÿ‹„¢¡ ¢Ž  ’ž ‹Ž  ’ž „ ¢ ‹¢ ¢Ž  „—Ž œ¤ •Ž¢Ž„ ¦¥ ¢¦ ‚§¤ Ÿ›‹Ž ’¥   „ŸŸ Ÿ˜Ÿ¢ž¤ ‚„¢¡ œ¥ ž¥ œ¥ ž¤¥ ‰ž›¥ œ¥ Ÿ „Š‚ MNA¢Ž MPA‰•Ž„  œ¤ Ÿ¦ ‹Ž¤ ‚ „¤ ¦¥
 œ¦ ¢¦ ƒ ¥ ‰ž›¥ Ÿ¤¡ Ÿ  ¢ Ÿ  ¢Ž˜¢Ÿ œ¢  ”š Ÿ¦¤ œŽ¤¡ ‡’  œ¥ ž¤¥ ‰ž›¥ Ÿ¤¡ ˆ ‹ œ§ƒ¤ ˆ ›’Ÿ œ¥ ‚ †Ž šŽ‹ œ¢  Ÿ‹ œ¤ ‡„ ¦¥ ¤ œŸ¤…¤¡ ‚ £¤ ‡„¤ ¦¤¡ ‡¢ œ¦ ‚—¦Ž ˜¢Ÿ œ¢ Ž¤ž¤š ‹¤ ¥ ¢Ž   œ¥ ‡£ œŸ œŽ¢ ¥ œ¤ Ÿ¦ ‹Ž ¦¢„¤ ¦¤¡ ŸŽ ‚’ ¢›„ ‹¤œ§ ¥ Ÿ¤¡ ³¤ ¦¥ œ¦ ¤¦ šŽ‹ ƒ ¥ „¤ œŸ¢¡ ’¥ ¦¤ šŽ™  ¦¤¡ ¦¢„¥ ¢Ž ˜Ÿ ™Ž¤‚ ³‹Ÿ¤ œ¢ „Ž‡¤‰ ¦¤  ¦¤¡ ‹¤„¥  ¦ ‡ ¥ œ¤¢¡ ¤’ ¦¢„ ¦¥ “¤‹ œ¢£¤ Ÿ‡‚¢Ž¤ ¦¢ ¤ š£‹¥  ›”  œ ˆœŽó¢Ž ¤¦ ž¢ ‚§¤ ‰›¤›„ œ¥ ‚Ž ˜œ’ ’šŽ“ ƒŽ œŽ¢£¤ œŽ„¥ ¦¤¡ ¢Ž œˆ§ ‰ž›¢¡ Ÿ¤¡ ¤’ ’Ž¥ ’¥ ¦¤  ¦¤¡ ¦¢„ 󉁞 œ¦ ’ ‰ž›¥ Ÿ¤¡ Ÿ¢‡¢‹¦MPA‡¢ œ¦ ¤œ ¤Ÿ ‹Ží‹¤ „‹Ž  퍟¦ ‹Ž ¢Ž Š”¥ ’ŽŽŸ ¦¤¡ ŸŽ ƒ§Ž ‚§¤ ˜Ÿ ³‹Ÿ¤ œ¤ “œ£¤„ ‹¢Ž  ¦¤¡ œ¤ ‡ ’œ„¤ œ¤   œ¥ ‹£Ž¦ Š„¤Ž Ÿ¤¡ œˆ§  ¦¤¡ ¤ Ÿ”ž‰„Ç ŠŸ¢“ ¦¤¡ ¢Ž œˆ§  ¦¤¡ „¢ œ¤   œŽƒ… ¦žœŽ¢¡ œ¥ ‚Ž¥ Ÿ¤¡ ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  œ¢ ‚„ ‚§¤  ¦¤¡ ’œ„¥ „ œ¦ ¢¦¤   ’¥ ‚ ƒŽ’ œŽ ’œ¤¡ ¢Ž ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ‡¢ œ¦ ‰ž›¥ œ¤ ¦Ž Š” ¢ ˜Ÿ ‚„ ’¥ ‚Š‚Ž ¦¢„¥ ¦¤¡   ‰ž„ ’¥ ‚¥ Š‚Ž œ¤¢¡ ¦¤¡  ‚ „¢ ¤œ ’¤’¤ ‡Ÿ˜„ œ¥ Ÿ¤‹¢Ž ‚Ž Ÿž ‡ž’¢¡ Ÿ¤¡   ŠŸ¤¢¡ œ —¦Ž œŽ„¥ ¦¢£¥ ’„ ¤¢¡ œ¥   ‰› „‚‹ž¢¡í „§ ¢¡ Ÿ¤¡ ¦¢ ¥ ¢ž¤    ”š¤¢¡ ¢Ž ƒ…¢Ž¤ œžˆŽ œ¤ Ÿ  Ÿ ¤¢¡ œ¢ ‚¥  ›‚ œŽ Ž¦¥ ¦¤¡ˆ¢ œ¦   „ŸŸ ˆ§£¤¢¡ ‚Ž£¤¢¡œ †Ž ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  œ¤ „ ƒŽ ƒ„ ¦¥ ‡¢ œ¦ ¤œ ‚ œŽ‹Ž “Š”¤„ ¦¤¡ ¢Ž ž¢   œ¤ „ ƒŽ ˜„Ÿ‹ œŽ„¥ ¦¤¡ ‚—¦Ž     ’¥ œ’¤ œ¢ œ¢£¤ ž¦ “œ¢¦  ¦¤¡ ŸŽ   œ¥ œŽ„¥ ‹§Ž„¥ ˜¢Ÿ Ÿ¤¡ ‚¥ ˆ¤ ¤ ƒ§¤ž ¥ œ ’‚‚ ¦¤¡ó¢Ž ¤¦ ž¢ ”Žš ƒ ¥ š£‹¥  ›”  Ÿ¤¡ ž¥ ¦¢£¥ ¦¤¡¢¦ ž¢ ‡¢ ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ’¥ œ‚§¤ Ÿž¥ ‚§¤  ¦¤¡ œ‚§¤ ›Ž¤‚ ’¥ ‹¤œ§ ‚§¤  ¦¤¡ œ‚§¤ œ¢£¤ Ÿ–ž‚¦ ‚§¤  ¦¤¡ œ¤ œ‚§¤ œˆ§  ¦¤¡ Ÿ  ŸŽ ‚¥ ƒ ¦ Ÿ‰‚„ ¢Ž ˜›¤‹„ Žœ§„¥ ¦¤¡ ¢Ž ‚  Ÿ ¥ ¢¢… ‹¤„¥ ¦¤¡ ¢Ž ‹  Ž„ œŸ¤‚¤ œ¥ ž¤¥ ‹˜ ¢ Ž¦„¥ ¦¤¡ ¢Ž ‡¤„ ƒŽ ƒ ¥ –¢Ž ƒŽ Š¢“¤ ‚§¤ Ÿ „¥ ¦¤¡   œ œ¢£¤ ƒŽ’  ‰ž  ¦¤¡   œ¤ œ¢£¤ ‰¤†¤„  ¦¤¡ œ¤¢ œ¦ ¢¦ ¤œ ŠŸ¢“ ¢Ž ™Ž¤‚ ‚¥ †Ž ¢¢…Ž ¦¥ ‰ž œ¦ ¦¢  „¢ ¤¦ ˆ¦¤¥ œ¦ ¦Ž “Š” œ¢ ˆ¦¥ ¢¦ ¢¢…Ž ¦¥ ¤  ¦¤¡  ”š Ÿž  ˆ¦¤¥ó‡’ œ œ¦ ‚ Ž ‚Ž ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ¦Ž ‡ž’¥ Ÿ¤¡ œŽ œŽ„¥ ¦¤¡ ŸŽ ¤œ Ÿ“œž ¤¦ ¦¥ œ¦ ¦Ž “Š” œ¤   „œ Ž’£¤ Ÿ“œž ‚žœ¦   ŸŸœ  ¦¥  ¦ ¦¤ ¦Ž “Š” Š– žœ§ ’œ„ ¦¥ ‚¥ “ŸŽ ž¢¢¡ œ¥ ƒ’ Ž‚–¥ œ œ¢£¤ ¤ŒŽ¤’  ¦¤¡ ¦¥ ¢Ž  ¦ ¦¤ œ¢£¤ ¤’ –Ž¤›¦ ‚ ¤ ¤ ¦¥ œ¦ ¤œ ˜Ÿ ™Ž¤‚ “Š” œ¤ ‹ŽŠ¢’„ ‚™¤Ž œ’¤ ‡‹¢ ‡¦‹ ¢Ž Žœ¢… œ¥   „œ ƒ¦ ˆ ’œ¥   „ŸŸ ‚„¢¡ œ ‰ž ˆ¦¤¥ ‡¢ œ¦ ”Žš ¢Ž ”Žš ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ¦¤ œŽ ’œ„¥ ¦¤¡ „ œ¦ ¤œ ˜Ÿ ³‹Ÿ¤ ‚žœ¦ ‰ž›¥ œ ¦Ž ³‹Ÿ¤ ‡’ –Ž‰   ƒŽ ˜„Ÿ‹ œŽ„ ¦¥ ¢¦ ˜„Ÿ‹ ‚‰ž Ž¦¥ ¢Ž ž¢¢¡ œ¢ ‚Ž ¢›„  ”š ¢Ž   œ¥ Ÿ’£ž œ ‰ž  œž ‡ ’œ¥ó¢Ž ¦žœŽ¢¡ œ¢ ‚§¤ ŒŽ ¦¢ œ¦ “œ£¤„ œ¤ ”¢Ž„ Ÿ¤¡ ’Š„ ‚ ƒŽ’  ¦¢¤ ¢Ž ¤‹„¤ œ¤ ”¢Ž„ Ÿ¤¡ ’ Ÿž¥ ¤ó ˆ¢¦‹Ž¤  †Ž ˜ž¤ Š  ’¥ „¢›˜„ ¢‚’„¦ œ¤ ‡„¤ ¦¤¡ œ¦ ¢¦ ƒ ¤ ˜ž¤ Ž¢¤„ œ¢ ‚Ž›ŽŽ Žœ§„¥ ¦¢£¥ ¦Ž £¢¡í¦Ž „§ ¥ ¢Ž ‰ž›¦ ƒ…¢Ž œ¤ ’–‰ ƒŽ “œ£¤„ ’  ¥ ¤ ‹ŽŠ¢’„¢¡ œ¤ ¢”¢ž¤ œ¥ ž¤¥ ˜ž›¥ œ¥ ¤Ÿ ‹Ží˜¢Ÿ ‹¢’„ ¢Ž ˆ§¤ “¦Ž„ Žœ§ ¥ ¢ž¥ šŽ‹ œ¢  Ÿ‹ œŽ œ¥ ˜¢Ÿ œ¤ „¢›˜„ œ¢ ƒ¢Ž œŽ ¥ œ¥ ’„§ ’„§ ˜¢Ÿ ‹¢’„¤  ”š  Ÿ’£ž œ¥ ‰ž ¢Ž ƒ ¥ ‹˜¢¢¡ œ¢ ˜Ÿž¤ ‡Ÿ¦ ƒ¦ £¤¡ ¥ „ œ¦ ™Ž¤‚ ˜¢Ÿ   ƒŽ ƒ¦ž¥ ’¥ ¤‹¦ ˜„Ÿ‹ œŽ ’œ¤¡ ¢Ž ¦Ÿ¤“¦ ’„§  ‚§ ¥ ¢Ž ¢š‹Ž¤ œ †‚¢„ ‹¥ ’œ¤¡˜¢Ÿ š¤ ž‰ž  „—Ž šŽŸ£¤¡ýý “¤‹àî

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں