13

ادب کا گلا گھونٹ کر معیشت نہیں بچائی جا سکتی

تحریر: شہزاد حسین بھٹی

اکادمی ادبیات پاکستان، ادارۂ ترقی اردو، اور نیشنل بک فاؤنڈیشن جیسے ادارے محض سرکاری تنظیمیں نہیں بلکہ ہماری تہذیبی اور فکری پہچان کا استعارہ ہیں۔ ان اداروں کا قیام کسی وقتی تقاضے یا عارضی ضرورت کے تحت نہیں ہوا، بلکہ یہ ایک قومی شعور، فکری سرمائے کی حفاظت اور اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے بنائے گئے ادارے ہیں جنہوں نے عشروں پر محیط خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف زبان و ادب کو فروغ ملا بلکہ کئی نسلوں کو فکری اور تخلیقی رہنمائی بھی حاصل ہوئی۔

سُننے میں آیا ہے کہ اکادمی ادبیات پاکستان، ادارۂ فروغِ قومی زبان، اقبال اکیڈمی، اردو سائنس بورڈ اور اس قسم کے دیگر اداروں کو غیر فعال اور پھر آہستہ آہستہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی تجویزیں پیش کی جا رہی ہیں۔ زبان کی ترویج و ترقی اور ادب کو فروغ دینے کی بجائے اس قسم کے حکومتی اقدامات پر دلی افسوس ہو رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت پر شاید ان ہی چند اداروں کا بارِ گراں تھا جس نے ہماری معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ بس انھیں اپنی عیاشیوں اور مراعات میں بے تحاشا اضافے کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھنا ہے، جس سے نہ ہمارے ملک کی معیشت متاثر ہوتی ہے اور نہ کسی غریب سے اس کی روزی روٹی چھینی جاتی ہے۔

حال ہی میں یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ ان اداروں کو کسی جامعہ کے شعبہ اردو کے تحت کر دیا جائے یا ان کے انتظامی ڈھانچے کو سمیٹ کر ختم کر دیا جائے۔ اس تجویز کے پیچھے بنیادی منطق ان اداروں پر اٹھنے والے اخراجات اور ان کی محدود کارکردگی کا بیانیہ ہے۔ تاہم کسی بھی قومی ادارے کی اہمیت کا تعین صرف مالی پہلو سے نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب بات زبان، ثقافت اور قومی شعور کی ہو۔ ادب، تحقیق اور زبان کی ترویج وہ میدان ہیں جن کی افادیت اور اثرات کا اندازہ عموماً طویل المدتی بنیادوں پر ہوتا ہے۔

اگرچہ اس تجویز میں کچھ مثبت پہلو موجود ہیں، جیسے وسائل کا یکجا ہونا، بجٹ کی بچت، اور انتظامی ڈھانچے کی سادگی، لیکن ان تمام فوائد کے باوجود سوال یہ ہے کہ آیا ان اداروں کا انضمام یا خاتمہ ان کے اصل مقاصد کو بھی محفوظ رکھ سکے گا؟ اکادمی ادبیات کا دائرہ کار تخلیقی ادب، ادیبوں کی فلاح، اور قومی و بین الاقوامی ادبی روابط تک پھیلا ہوا ہے، جب کہ ادارہ ترقی اردو زبان کی علمی، تدریسی اور تحقیقی سطح پر ترویج میں مصروف ہے۔ ان دونوں اداروں کے کاموں میں فرق بھی ہے اور ان کی نوعیت بھی جداگانہ ہے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کا دائرہ کار بنیادی طور پر کتابوں کی اشاعت، مطالعہ کے فروغ، اور قارئین و مصنفین کے درمیان پل قائم کرنا ہے۔ اگر اس ادارے کو اشاعت کے مشترکہ پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا جائے، تو بلاشبہ کچھ انتظامی بہتری آ سکتی ہے، مگر اس بنیاد پر تمام ادبی و لسانی اداروں کو یکجا کر دینا یا کسی جامعہ کے تعلیمی شعبے کے تابع کر دینا ایک غیر فطری قدم ہو گا۔ اس سے ان اداروں کی تخلیقی خودمختاری متاثر ہو سکتی ہے، اور جو افراد عملی ادب، زبان یا تخلیق سے جڑے ہیں، ان کی آواز دب سکتی ہے۔

ہاں اگر ملک کو خطرہ ہے تو ادب سے ہے، معیشت کی جھکی ہوئی کمر ادیبوں کے منہ سے نوالہ چھین کر ہی سیدھی کی جا سکتی ہے۔ عقل و دانش کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے آخر کار انہوں نے تمام تر شعبوں میں ادب کو کارِ فضول اور ادیبوں کو معاشرے پر بوجھ سمجھ لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ادب کو زندگی سے نکال دیا جائے تو زندگی محض چلنے پھرنے، کھانے پینے اور سونے کا نام بن کر رہ جائے گی۔ ادب کے بغیر ایک مہذب معاشرہ تشکیل دینے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔

اگر ان اداروں کو کسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے تحت کر دیا جائے تو ممکن ہے کہ علمی سطح پر کچھ تحقیقی نظم پیدا ہو، لیکن اس سے ان اداروں کی قومی سطح پر خودمختار حیثیت ختم ہو جائے گی۔ ان اداروں کی تقریبات، ایوارڈز، ادبی کانفرنسیں اور رسائل براہِ راست معاشرے کے ادبی مزاج کو سنوارنے میں کردار ادا کرتے ہیں، جب کہ ایک جامعہ کے حدود محدود، بسا اوقات مقامی اور محض تدریسی ہو سکتے ہیں۔ تخلیقی اور عوامی سطح کے پروگراموں کا انعقاد ایک جامعہ کے نظم کے تابع کر دینا ادبی دنیا سے ایک طرح کی لاتعلقی کو جنم دے گا۔

ان اداروں کو بند یا ضم کرنے کے بجائے اگر ان کی کارکردگی کا شفاف اور منصفانہ جائزہ لیا جائے، اور اس کی روشنی میں اصلاحاتی اقدامات کیے جائیں تو یہ زیادہ مفید ثابت ہو گا۔ مثلاً ان اداروں میں ای گورننس، میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں، نتائج پر مبنی منصوبہ بندی، اور نئی نسل سے روابط کے مؤثر ذرائع شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ادارے زندہ اور متحرک رہیں گے بلکہ ان کی افادیت بھی بڑھے گی۔

عرفان صدیقی صاحب کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے اسمبلی میں اس حوالے سے آواز اٹھائی ہے۔ میں تمام شعرا و ادبا سے دست بستہ عرض گزار ہوں کہ اپنے مضبوط ترین ہتھیار قلم کا استعمال کرتے ہوئے بھرپور احتجاج کریں۔ ادب اور ادیبوں کو معاشرے کا بوجھ سمجھنے والوں کے سامنے دلیل، فہم اور جذبے سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ادب دراصل انسانی تہذیب کا ستون ہے، نہ کہ اس پر بوجھ۔

خبر پر اظہار رائے کریں