میرے عزیز دوست میاں منیر صاحب نے ایک سوال کیا:
“جمہوری ملک میں سیاسی احتجاج کو طاقت سے کچلنے کا کیا جواز ہے؟”
یہ سوال ہمارے ملک کے سیاسی و سماجی نظام پر ایک گہری اور تلخ روشنی ڈالتا ہے۔ جمہوری معاشروں کی بنیاد انصاف اور عوام کے حقوق کے تحفظ پر ہوتی ہے، لیکن جب طاقت کا بے جا استعمال کر کے مظلوموں کی آواز دبائی جائے، تو یہ ایک ایسی گہری کھائی کی نشاندہی کرتا ہے، جس میں ہم برسوں سے گرتے جا رہے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔” (سورہ البقرہ: 205)
یہ آیت واضح طور پر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ظلم اور ناانصافی کو اللہ تعالیٰ کسی صورت پسند نہیں کرتا۔ ظلم چاہے کسی بھی شکل میں ہو، وہ فساد کے زمرے میں آتا ہے۔ جب جمہوریت کے نام پر لوگوں کے حقوق چھین لیے جائیں، ان کے ووٹ کی عزت پامال کی جائے، اور عوامی احتجاج کو طاقت سے دبایا جائے، تو یہ فساد اور ظلم کی بدترین شکل بن جاتی ہے۔
عمران خان نے آئین پر بھروسہ کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑیں۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ 90 دن کے اندر انتخابات ہوں، جیسا کہ آئین کا تقاضا ہے۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ آئین اور قانون کے محافظ ادارے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے اور عوام کو ان کا جمہوری حق ملے گا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے راستے میں بد نیت عناصر موجود ہیں، جو ان کے اس فیصلے کو ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن حد تک جائیں گے۔
یہاں ہمیں مولانا مودودی کی وہ تحریر یاد آتی ہے، جس میں وہ فرماتے ہیں:
“جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن وہی ہے جو جمہور کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرے اور اپنی مرضی عوام پر تھوپنے کی کوشش کرے۔”
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ 90 دن کا آئینی حق چھین لیا گیا، اور الیکشن کو اس وقت تک ملتوی کیا گیا جب تک وہ مکروہ چہرے والا شخص عدلیہ میں نہ آ بیٹھے، جو ان کے حق میں فیصلے دے سکے۔
الیکشن کے دن میری طبیعت سخت خراب تھی۔ اسی دن ایک بوڑھی مائی نے مجھ سے پوچھا:
“بیٹا، عمران خان کا نشان کون سا ہے؟”
میں نے اسے بتایا کہ عمران خان کا نشان “بیٹھا” ہونا چاہیے تھا، لیکن بد نیت عناصر نے اسے غائب کر دیا۔ مائی نے افسوس سے سر ہلایا اور کہا:
“بیٹا، کیا اس ملک میں آئین کی کوئی عزت نہیں؟”
یہ مائی صرف ایک فرد نہیں تھی، بلکہ یہ اس قوم کی وہ مظلوم عوام ہے، جن کا حق طاقت کے زور پر چھینا جا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے جذبات کو کچلا جا رہا ہے، اور جنہیں آئین کے نام پر دھوکہ دیا جا رہا ہے۔
قرآن پاک میں ظالموں کے انجام کے بارے میں فرمایا گیا:
“اور ظالموں کو ان کے ظلم کا انجام ضرور ملے گا، اور اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔” (سورہ ہود: 102)
یہ آیت ہمیں اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ ظلم زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ سکتا۔ ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لیے اللہ کی عدالت کافی ہے۔
آئیں میرے ساتھ چلیں۔ میں آپ کو انیس ستی شہید کی قبر دکھاتا ہوں،جو ماں کو کہہ کے گیا تھا کہ میں اج خان کو رہا کر کے اؤں گا اور نہ ایا تو واپس نہیں ہوں گا اور ظالموں نے سنائپر سے اس کو گولی ماری اس کا بھائی کہہ رہا تھا کہ اس نے خان کا پرچم تھما ہوا تھا اس کے اوپر عمران خان کی تصویر تھی جیسے ہی اس نے لہرایا اوپر سے اس کو سیدھی گولی سینے میں جا کے لگی اور وہ شہید ہو گیا ۔اور ظالم لوگوں یہ کہہ کے فوج پہ الزام دھر دیا کہ سپہ سالار نے ہماری بہت مدد کی
عارف کی یاد دلاتا ہوں جو اپر خانپور میں رہتا تھا ، اور ان لوگوں کی داستان سناتا ہوں، جنہوں نے اس ملک کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ لیکن آج، ان کی قربانیوں کو بھلا دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کی لاشیں ان کے ورثا کو اس شرط پر دی گئیں کہ وہ کہیں کہ موت ایک حادثہ تھی۔ یہ کیسا ظلم ہے؟ یہ کیسی بے حسی ہے؟
خالق نظریہ پاکستان چوہدری رحمت علی نے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ اس آزاد ملک کے باسیوں کا سامنا انگریزوں کے غلاموں سے ہوگا
لیکن ہماری قوم شاید سوئی ہوئی ہے۔ ہمیں ان قربانیوں کی قدر نہیں، جو ہمارے لیے دی گئیں۔
حدیث مبارکہ ہے:
“مظلوم کی بد دعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔” (صحیح بخاری)
آج یہ مظلوم عوام اپنے حقوق کے لیے بد دعائیں کر رہی ہیں۔ ظالموں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، اور جب وہ چلتی ہے تو کسی کو خبر نہیں ہوتی۔
تاریخ گواہ ہے کہ ظالموں کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا اقتدار ہمیشہ قائم رہے گا، وہ آج خود تاریخ کا ایک عبرتناک سبق بن چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
“اور نہ سمجھو کہ اللہ ظالموں کے کاموں سے غافل ہے، وہ انہیں صرف اس دن کے لیے مہلت دیتا ہے جس میں آنکھیں دہشت سے پھٹی رہ جائیں گی۔” (سورہ ابراہیم: 42)
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت کی اصل روح عوامی رائے اور انصاف میں ہے۔ اگر ان اصولوں کو پامال کیا گیا، تو یہ معاشرہ تباہی کی طرف جائے گا۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہوں۔ یہ وقت ہے کہ ہم آئین کی حفاظت کریں۔ ظالموں کے خلاف کھڑا ہونا ہماری ذمہ داری ہے، کیونکہ تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ظلم کو سہنا بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔
یاد رکھیں، خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، اور جب وہ چلتی ہے، تو ظالموں کو کہیں پناہ نہیں ملتی۔قوم اٹھ مئی کو پھر ائینی اور قانونی احتجاج کرے گی
میاں منیر صاحب شاید اپ کو جواب مل گیا ہوگا
،،ہم گجر لوگ بجھارتیں نہیں ڈالتےبات سیدھی سیدھی کرتے ہیں،،