یوم یکجہتی کشمیر

کشمیر کی گل پوش وادیاں روئی کے گالوں سے ڈھکی چٹانیں ہنستے مسکراتے مرغزار چمکتے دمکتے سبزہ زاررنگ و نورمیں نہاتے ہوئے نظاروں کی سر زمین جہاں آج ہر طرف آگ ہی آگ ہے۔ جہاں بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔جہاں ظلم کے بادل چھائے ہیں۔ جہاں معصوم کلیوں اور مسکراتی جوانیوں کو موت کی تاریکیوں میں دھکیلا جا رہاہے۔ ایسا کیوں ہو رہاہے۔ اس حسین وادی میں ایسا کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے۔ سب سوالوں کا بس ایک ہی جواب بھارتی سامراج۔ کیونکہ یہاں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جو ماتم کدے میں تبدیل نہ ہو چکا ہو
سنا ہے بہت سستا ہے لہووہاں کا
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں
وہ کشمیر جہاں کبھی پھول کھلتے تھے فضاؤں میں ابر پارے رقص کرتے تھے وہ کشمیر جہاں نرم ہواؤں کا گزر تھا مگر افسوس کے آج وہاں تاریکی اور سناٹا چھایا ہو ا ہے۔ایک کروڑ کشمیریوں پر انگارے برسائے جا رہے ہیں۔ جہاں باد سحر تو آتی ہے لیکن ہزاروں صحراؤں کی تپش ساتھ لاتی ہے۔ جہاں صحن چمن میں پھول اور خوشبو کسی سازش کے ڈر سے دور دور رہتے ہوں۔ جہاں اند ھیری رات اپنے بال بکھیرے ہر روشنی کو ڈھانپ رہی ہو۔جہاں رات کو تنہائی اور دن کو بے بسی کا ڈیرہ ہو۔ دیکھنے والی آنکھ کو شاید ہی کوئی گھر ایسا ملے جو ماتم کدے میں تبدیل نہ ہو چکا ہو۔یہ بچہ ہے جس کی آنکھیں ضائع ہو چکی ہیں یہ ننھی مریم ہے جس کا خو بصورت جسم بم سے جھلس چکا ہے۔ یہ ایک بیوہ ہے جس کا شو ہر شہید ہو چکاہے۔ آج میں پو چھتاہو ں۔ دنیا میں تہذیب و تمدن کے علمبرداروں سے کیا تمہیں بھوک سے بلبلاتے ہوئے بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتی۔ ا ن شیر خوار بچوں کے ہونٹوں کی لرز ش نظر نہیں آتی۔جو اپنی ماؤں کے خالی سینے ٹٹولتے ہیں۔کیا اقوام متحدہ کے ایوانوں میں کوئی گونج سنائی نہیں دیتی۔ امن کے رکھوالوں دنیا تم سے پوچھتی ہے۔ یہ سوال کر تی ہے کیا کشمیر کا غم دائمی ہے۔ کیا اس خزا ں کے لیے کوئی بہار نہیں۔ کیا اقوام متحدہ یونہی تما شائی بنی رہے گی۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہوتو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

اپنا تبصرہ بھیجیں