کبوتر سے انٹرنیٹ تک

انسان ایک علاقے میں پیدا ہوتا ہے خوب کھیلتا کودتا ہے اپنے دوست احباب ماں باپ بہن بھائیوں کے ساتھ زندگی کے حسین لمحات گزارتا ہے کہ اسے حصول تعلیم یا حصول معاش کے لیے کسی دور دراز علاقے میں جانا پڑھ جاتا ہے وہ اس علاقے میں اپنے کام میں مگن ہو جاتا ہے چند دن ہی گزرتے ہیں

کہ اسے اپنا آبائی علاقے کے در و دیوار یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں وہ وہاں کے بیتے حسین لمحات و دنوں کو یاد کرتا ہے وہ خوبصورت دن جو اس نے اپنے والدین اور دوستوں کے ساتھ بسر کیے ہوتے ہیں ان کی یاد اسے تڑپاتی ہے وہ ان سے بات چیت کرنا چاہ رہا ہوتا ہے ان کی خیریت دریافت کرنے کی تمنا رکھتا ہے

اسی آرزو میں وہ ان کے لیے ایک محبت نامہ تحریر کرتا ہے محبت نامہ تو لکھ لیتا ہے لیکن ان تک ترسیل کیسے ممکن بنائی جائے یہ مسئلہ بن جاتا ہے پہلے پہل تو وہ کسی ایسے قافلے والوں کو تلاش کرتا ہے جو اس کی بستی کے قریب جانے والا ہو وہ اپنا محبت نامہ اس قافلے والوں کے سپرد کرتا ہے

جو وہاں جا رہا ہوتا ہے لیکن یہ اس کا مستقل حل نہیں تھا پھر اس وقت کے حکمرانوں نے گھوڑے کے ایک دن کی مسافت پر چوکیاں قائم کیں ایک گھڑ سوار پہلی چوکی پر خطوط کو پہنچا دیتا وہاں موجود نیا گھڑ سوار ان خطوط کو لے کر اگلی چوکی تک پہنچ جاتا اس طرح محبت نامے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے لگے ان کے ساتھ ساتھ اخراجات کو کم کرنے کے لیے کبوتروں کو بھی تربیت دی گئی تربیت یافتہ کبوتر بھی ایک چوکی سے دوسری چوکی تک پیغام کو پہنچانے لگے یہ عام خطوط کے لیے ٹھیک تھا

تھوڑی بہت دیر سویر سے کوئی فرق نہیں پڑھتا جبکہ ایمرجنسی میں یہ طریقہ مفید نہیں تھا انسان کوشش میں لگا رہا کہ اس میں کچھ جدت اور آسانی پیدا کی جائے اسی کوشش میں سیموئل فنلے مورس کو کامیابی ملی اس نے ٹیلی گراف کو ایجاد کیا ٹیلی گراف یا تار برقی پیغام رسانی کا ایسا طریقہ ہے جس کو سوائے تربیت یافتہ لوگوں کے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا یاد رہے اس طریقے میں پیغام کے مطابق تاروں میں ارتعاش پیدا کر دیا جاتا ہے اب سننے والا اس ارتعاش کو ڈی کوڈ کر کے پیغام سمجھ لیتا ہے اور اس کو مطلوب جگہ پہنچا دیا جاتا ہے برقی ارتعاشات سفر کرتے ہیں دوسری جگہ برقی ارتعاش پھر انہیں آوازوں میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں

اور آپ کا پیغام آپ کے دیے ہوئے پتے پر پہنچا دیا جاتا ہے اسے عرف عام میں تار کہا جاتا ہے اس مشین پر جو پہلا پیغام تھوڑے سے فاصلے پر بھیجا گیا وہ یہ تھا ”جو لوگ صابر اور مستقل مزاج ہوتے ہیں ان کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔“ دنیا میں تار برقی کا پہلا آزمائشی سلسلہ واشنگٹن اور بالٹی مور تک 1844 میں شروع ہوا اس کے بعد پوری دنیا میں اس کا نیٹ ورک بچھا دیا گیا گراہم بیل ٹیلی گراف میں مزید جدت لانے کے لیے کام کر رہے تھے

کہ ٹیلی گراف ایک ساتھ کئی پیغامات وصول کر سکے اسی جدوجہد میں 2 جون 1875 کو ٹیلی فون ایجاد کر دیا اس کے پیٹنٹ 7مارچ 1876 کو ملے اور 10مارچ 1876 کو گراہم بیل نے سب سے پہلی کال اپنے رفیق مسٹر واٹسن کو کی واٹسن سہ منزلہ
مکان کے سب سے نچلے کمرے میں مصروف تھا
اردگرد مشینوں کی گڑگڑاہٹ تھی جس میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی عین اس حالت میں گراہم بیل کی آواز گونجی مسٹر واٹسن یہاں تشریف لائیے مجھے آپ سے کام ہے پہلے فون بغیر نمبر و ڈائل کے ہوتے تھے ٹیلی فون نمبر بھی 1879 یا 1880 میں استعمال کیے گے اس سے پہلے آپریٹر کو نام بتا کر کال ملوائی جاتی تھی ٹیلی فون کا ڈائل 1891میں ایکمن براؤن سٹروگر نے ایجاد کیا ڈائل والا فون پہلی مرتبہ 1892 میں استعمال کیا گیا پہلا تجارتی ٹیلی فون ایکسچینج 28 جنوری 1878 کو امریکہ کے شہر نیو ہیون میں قائم کیا گیا

مواصلات میں انقلاب اس وقت آیا جب گراہم بیل نے 1885 میں ٹیلی فون کمپنی کی بنیاد رکھی اس ایجاد نے وقت اور فاصلے سمیٹ کر رکھ دیے لیکن یہ فون جو برقی تاروں کی مدد سے کام کرتا تھا گھروں میں یا دفاتر کی میزوں پرایک ہی جگہ رکھا رہتا تھا بیسویں صدی کے ساتویں عشرے میں امریکی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر نے ایک ایسے مواصلاتی آلے کی ایجاد کی ضرورت محسوس کی جو بے تار ہو جس کے ذریعے انسان گھر میں ہو یا شہر میں یا دوستوں کی مجلس میں وہ ہر جگہ سے گفتگو کر سکے

اسی جد وجہد میں وہ 1973 کو وائرلیس فون ایجاد کرنے میں کامیاب ہوا اور اس نے3 اپریل 1973 کو اس کے ذریعے اپنی کمپنی کے لینڈ لائن فون پر پہلی کال کرنے کا تجربہ کیا اس کے ایجاد کیے ہوئے موبائل فون کا وزن دو کلوگرام تھا جب کہ اس کی لمبائی ایک فٹ سے زیادہ تھی اس ایجاد پر تقریباً دس لاکھ ڈالر لاگت آئی اس فون کی بیٹر ی ٹائمنگ انتہائی کم تھی اس پر بہ مشکل 35 منٹ بات کی جاسکتی تھی جب کہ اُسے دوبارہ قابل استعمال بنانے کے 10 گھنٹے تک بیٹر ی کو چارج کرنا پڑتا تھا وائرلس میں بہتری کی کوشش کرتے کرتے 16 اگست 1994 کو دنیا کا پہلا سمارٹ فون معروف کمپنی آئی بی ایم نے متعارف کرایا تھا جس کا نام پہلے انیگلر رکھا گیا

مگر بعد میں اسے سائمن پرسنل کمیونیکٹر کہا جانے لگا یہ مارکیٹ میں دستیاب پہلا ٹچ اسکرین فون تھا جسے اسٹائلس یا انگلی کی مدد سے آسانی سے استعمال کیا جاسکتا تھا موبائل فون سے پہلے جب آپ فون کرتے تھے تو آپ کسی مقام پر فون کرتے تھے لیکن اب جب آپ موبائل فون سے کال کرتے ہیں تو آپ کسی شخص سے بات کرنا چاہتے ہیں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی لیکن مواصلاتی نظام میں اصل انقلاب انٹرنیٹ کی کمرشل بنیادوں پر فروخت کے بعد برپا ہوا ہے 29 اکتوبر 1969 کو کلائن روک نے پہلی مرتبہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے

پیغام ایک سے دوسرے سرے پر بھیجا انتیس اکتوبر 1969 رات 10بجے جب کلائن کے گرد اس کے ساتھی پروفیسرز اور طلباء ہجوم کی صورت میں جمع تھے تو کلائن روک نے کمپیوٹر کو آئی ایم پی کے ساتھ منسلک کیا جس نے دوسرے آئی ایم پی سے رابطہ کیا جو سینکڑوں میل دور ایک کمپیوٹر کے ساتھ منسلک تھا چارلی کلین نامی ایک طالب علم نے اس پر پہلا میسج ٹائپ کیا جبکہ 1993 میں آپٹیکل فائبر کی مدد سے انٹر نیٹ کا نظام دنیا بھر میں پھیل گیا اس سے پہلے یہ صرف امریکی پینٹا گون میں استعمال ہوتا تھا جوں ہی انٹرنیٹ تک عام عوام الناس کو رسائی ملی اس کے ساتھ ہی اس کو سماجی رابطے کی سائٹس فیس بک ٹوئٹر انسٹا گرام وغیرہ مل گئیں

جن کی وجہ سے دنیا انسان کے سامنے ایسے ہی ھو گئی جیسے اس کے ہاتھ پر رائی کا دانا پلک جھپکتے ہی اس کو دنیا کے کسی بھی کونے میں رابطہ کرنا ہو اس کے لیے ممکن ہو گیا دنیا کے اندر کوئی واقعہ رونما ہو اسی لمحے اسے خبر مل جاتی ہے وہ ہزاروں میل دور بیٹھے اپنے گھر کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے کہ کون میرے گھر میں آ رہا ہے کون کیا کر رہاہے وہ سب سے باخبر ہے یہ سب ممکن بنایا انٹرنیٹ نے اور انٹرنیٹ کو ایجاد کیا انسان نے انسان تیری عظمت کو سلام۔

اپنا تبصرہ بھیجیں