ڈیپ فیک ٹیکنالوجی

ایک زمانے میں کہا جاتا ہے تھا کہ اگر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے تو پھر تو یقین کرو گے؟‘ لیکن آج ڈیپ فیک کے زمانے میں کوئی اپنی آنکھ سے دیکھ بھی لیں تو بتانا مشکل ہے کہ آخر حقیقت کیا ہے۔پاکستانی سیاست میں آج کل ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے بڑے چرچے ہیں جو سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد شروع ہوئے جس میں ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں ان کی کسی ڈاکٹرڈ ویڈیو کی ذریعے ان کی کردار کشی کی جائے گی۔اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں نے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے متعلق مختلف ٹوئٹس کیں جس میں انھوں نے اپنے سپورٹروں کو بتانے کی کوشش کی کہ کیسے اس قسم کی ٹیکنالوجی سے کسی کی بھی کردار کشی کی جا سکتی ہے۔ڈیپ فیک ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کسی ایک شخص کے چہرے پر کسی دوسرے شخص کا چہرہ اور آواز لگا دی جاتی ہے جسے دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کی ویڈیو دیکھ رہا ہے جو درحقیقت اس کی ہے ہی نہیں۔ اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ فوٹوشاپ یا اس طرح کے دیگر ایڈیٹنگ سافٹ ویئر بھی تو یہی کام کرتے ہیں تو کیا وہ بھی ڈیپ فیک ہیں یا نہیں۔ تواس کا جواب ہے نہیں۔ فوٹو شاپ جیسے سافٹ ویئرز کی مدد سے ہم اکثر خود ایک تصویر کو ایڈیٹ کرتے ہیں جبکہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے سافٹ ویئر فراہم کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے ایسا کرنا سیکھتا ہے، جو کہ تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں ہوتا ہے۔مثلاً اگرہم نے کس شخص کی ڈیپ فیک ویڈیو بنانی ہو تو میں اس کی متعدد تصاویر اور ویڈیوز اکٹھی کریں گے اور جس کی مدد سے ڈیپ فیک بنانے والا سافٹ ویئر ان کے چہرے کی حرکت اور تاثرات کا معائنہ کرے گا اور جب ہم اس شخص کی شکل اپنے چہرے پر لگائیں گے تو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی نہ صرف ہمارے چہرے کو اس شخص کے چہرے سے بدل دے گی بلکہ میرے چہرے کی حرکت اور تاثرات کو بھی اس شخص کے چہرے اور تاثرات جیسا بنا دے گی۔اس ٹیکنالوجی کے بارے میں جان کر اکثر ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ شاید اس ٹیکنالوجی کا مقصد جعلی ویڈیو بنا کر کسی کردار کشی کرنا ہی ہے لیکن ہر گز ایسا نہیں ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال ہالی وڈ کی فلموں بھی کیا گیا ہے۔ مثلاً مشہور فلم فاسٹ اینڈ فیوریس سیون کی فلمنگ کے اختتام سے قبل ہی اس کے مرکزی کردار نبھانے و الے پال واکر کی ایک روڈ حادثے میں ہلاکت ہوگئی تو فلم ڈائریکٹر نے ایک سین ان کے بھائی سے کروایا اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے مدد سے ان کے چہرے پر پال واکر کا چہرا لگا دیا جس سے دیکھنے والوں کا لگا کہ اس سین میں بھی پال ہی ہیں جبکہ وہ ان کے بھائی تھے۔اسی طرح ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا سیاست میں بھی استعمال کیا گیا جب انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کے ایک رہنما منوج تیواری نے 2020 کے الیکشن میں مختلف زبانوں میں ویڈیو جاری کیں جس میں ووٹ بی جے پی کو ڈالنے کا کہا گیا۔ اب بظاہر اس ویڈیو میں کچھ غلط نہیں تھا سوائے یہ کہ انگریزی میں پیغام دینے والا شخص منوج تیواری نہیں بلکہ کوئی اور تھا جن کے چہرے پر منوج کا چہرا لگایا گیا تھا اور ان کے آواز کو منوج جیسا بنایا گیا تھا۔تاہم امریکی سیاست میں اس کا استعمال منفی رہا جب سابق صدر باراک اوباما کی ویڈیو جاری کی گئی جس میں انھیں قوم کے خطاب کے دوران ڈانلڈ ٹرمپ کے لیے غیر مہذب الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن دراصل یہ ایک ڈیپ فیک ویڈیو تھی اور باراک اوباما نے ایسے الفاظ کبھی ادا ہی نہیں کیے۔خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جوں جوں یہ ٹیکنالوجی عام ہوگی اس کا منفی استعمال اور اس کے ذریعے غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی عام ہوگا جو
کہ مستقبل میں جمہوریت اور امن و امان کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے۔سلبریٹیز اور سیاسی شخصیات کی ڈیپ ویڈیوز ایک عام شخص کی ویڈیو بنانے سے زیادہ آسان ہوتی ہے۔ڈیپ فیک ویڈیو بنانے کے لیے اس شخص کی زیادہ سے زیادہ ویڈیوز اور تصاویر درکار ہوتی ہیں۔ اس لیے مشہور شخصیات کی ڈیپ فیک ویڈیو بنانا نسبتا آسان ہوتا ہے۔ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا ایک نقصان اس کو استعمال کرتے ہوئے فحش ویڈیوز کی تیاری بھی ہے۔ انٹرنیٹ پر ہالی وڈ اور بالی وڈ کی اداکاروں کی ایسی متعدد جعلی ویڈیوز ہیں جن کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے مدد سے بنایا گیا ہے۔عام عوام کو ایک اصلی اور ڈیپ فیک ویڈیو دکھائی اور ان سے پوچھا کہ آیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کون سی ویڈیو اصلی ہے؟ حیران کن طور پر بہت سے لوگ ڈیپ فیل ویڈیو پہچاننے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک کم تجرباکار شخص اگر ڈیپ فیک ویڈیو بنائے گا تو اس کی شناخت کرنا آسان ہے۔’لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ ویڈیو جتنی مہارت سے بنائی گئی ہوگی اس کی شناخت اتنی ہی مشکل ہے اور اس کے علاوہ کیونکہ یہ ویڈیوز مشین لرنگ (machine learning) سے بنائی جاتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ مشین اس کی شناخت کرنے والے طریقے کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جائے۔‘تاہم امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزارت داخلہ کے زیر نگرانی ہونے والی تحقیق میں ڈیپ فیک ویڈیوز کو شناخت کرنے والے سافٹ وئیر کی تیاری جاری ہے۔ڈیپ فیک ویڈوز کی شناخت کرنا کہ آیا یہ اصلی ہے یا نہیں یہ پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے لہذا ممکن ہے کہ جب تک اس بات کہ تعین ہو کہ وائرل ویڈیو ڈیپ فیک ہے تب تک نقصان ہو چکا ہو۔ذرا سوچیے کہ کوئی انڈین وزیر اعظم کی ڈیپ فیک ویڈیو بنا دے جس میں وہ کہہ رہیں ہوں کہ ان کی فوج پاکستان پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا پاکستان اس ویڈیو کی اصلیت جاننے تک کا انتظار کرے گا یا اپنے ملک کی حفاظت کے لیے فورا جوابی کارروائی کرے گا۔سوشل میڈیا کے ذریعے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے تیار کردہ مواد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے جو معاشرتی برائیوں کے علاوہ سنگین جرائم کا سبب بھی بن رہا ہے اس لیے عام افراد کو اس سے متعلق معلومات لازمی رکھنا ضروری ہے اس مقصد کے لیے آئے روز نئے سافت وئیرز،ایپلی کیشنز،وغیرہ سامنے آتی رہتی ہیں جیسے ڈیپ وئیر،سیرینی وغیرہ کا استعمال ان دنوں بڑھ گیا ہے ڈیپ فیک دنیا بھر میں ابھرتا ہواایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جس کا واحد حل یہی ہے کہ عام افراد مصنوعی ذہانت،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائبر سیکیورٹی میں ہونے والی جدید پیش رفت سے خود کو آگاہ اور اپڈیٹ دکھیں خواتین کو اس حوالے سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے کہ ان کی شیئرنگ کو ڈیپ فیک سے انجیئنرنگ کے ذریعے انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ا س کا واحد حل یہی ہے کہ اپنے ڈیٹا کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے اور سائبر سیکیورٹی سے متعلقہ ادارے آن لائن ہراسانی پر فوری کارروائی کریں دیگر تعلیمی اور تحقیقی اداروں کو بھی اس حوالے سے فعال ہونے کی ضرورت ہے اور عام افراد تک اس ٹیکنالوجی کے حوالے سے آگاہی اور معلومات پہنچانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں