305

ڈاکٹر منیر تابش‘اردو اور پنجابی زبان کے شاعر

ڈاکٹر منیر تابش کے7جون 1969ء کو ساہیوال میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال اور بہاؤالدین زکریا یو نیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ غزل اور نظم کہتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ”چشم حیرت ” 2022ء میں منظر عام پر آیا۔ آج کل چک بیلی خان، تحصیل و ضلع راولپنڈی کے گاؤں ڈھڈیاں میں رہائش پذیر ہیں۔ گذشتہ دنوں آپ کی رہائش گاہ پر آپ سے شعر و ادب کے حوالے سے ایک مفصل گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے

آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کس شہر سے کیا؟ کے جواب میں بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ساہیوال میں کلینک کھولا، کچھ عرصہ ساہیوال میں رہنے کے بعد لاہور کے لئے رخت سفر باندھا لیکن لاہور میں دل نہیں لگا پھر راولپنڈی کو چنا۔ راولپنڈی کی خوبصورت وادیاں دل کو بہا گئیں۔ راولپنڈی کے حلقہ ادب نے مجھے بہت مقام دیا اور پھرراولپنڈی نے مجھے کہیں جانے نہیں دیا۔ لاہور گو کہ ثقافت کا ایک مرکز ہے

اور ہر شاعر، ادیب اور فنکار لاہور کو پسند کرتا ہے لیکن میں وہاں کچھ دیر رہ کر لاہور کے شور و غل سے تنگ آگیا اور میں نے راولپنڈی کو تاحیات رہنے کے لئے چنا کیوں کہ یہاں کی ادبی فضا مجھے راس آگئی۔ یہاں کے لوگ میرے دل کو بہا گئے۔ مجھے یہاں قلبی سکون ملا۔ نام ملا۔ شہرت ملی۔ میری شاعرانہ طبیعت کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد ایک بہترین جگہ ثابت ہوئی۔ لکھنے کے لئے راولپنڈی کے علاوہ مجھے اچھا ماحول کہیں میسر نہیں ہوا یہی وجہ ہے میں نے اپنی پہلی کتاب ” چشم حیرت” راولپنڈی میں رہ کر مکمل کی اور یہیں سے میں نے اس کو شائع کیا۔ شاعری سے تعلق تو پیدائشی طور پر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے

۔ میں نے پہلا شعر جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو کہا اور راولپنڈی کی ادبی فضا نے مجھے مزید لکھنے پر مجبور کیا۔ مجھے ایسی محافل میں سر ہوئیں کہ میرے اندر کا چھپا ہوا شاعر راولپنڈی کی ادبی فضا نے اُجاگر کیا۔زندہ لاشوں کو بھلا دریا اُبھارے کیسے موج دریا سے مروت لیں کنارے کیسے راولپنڈی جب آیا تو میری پہلی ملاقات حرف اکادمی کے چیئر مین کرنل مقبول حسین سے ہوئی جنہوں نے راولپنڈی نواز شریف پارک میں موجود ای لائبریری میں میرے نام ایک شام رکھی سے جس میں راولپنڈی کی معروف ادبی شخصیات موجود تھیں پھر اس کے بعد ادب کا سفر اپنی بلندیوں کو چھونے لگا اس کے بعد میری ملاقات عالمی ادب اکادمی کے بانی عرفان خانی سے ہوئی

اور پھر میں نے عالمی ادب اکادمی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور مجھے عالمی ادب کا نائب صدر بنا دیا گیا۔ عرفان خانی کی کاوشوں سے ادب کا پودا پروان چڑھتا چل گیا یوں بہت سی معروف ادبی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ عرفان خانی نے میری پہلی رہنمائی فرمائی اور میری ملاقات پاکستان کے نامور شاعر نسیم شیخ سے کروائی نسیم شیخ نے میری پہلی کتاب ”چشم حیرت”شائع کی۔ آج کل میں غزلوں پر مشتمل پنجابی کی ایک کتاب پر کام کر رہا ہوں جو کہ جلد ہی قارئین کے ہاتھوں میں ہوگی۔ آنے والی کتاب میں سے کلام ملاحظہ کیجئے
غم دے پتھر جڑ جاندے نی
سنگی اکھاں بھر جاندے نی
کلے سب نہیں لڑدے ایتھے
تکھے بول وی ٹر جاندے نی
شاعر ایک مکمل فنکار ہوتا ہے۔ شاعر ایک اچھا میز بان ہوتا ہے۔ شاعر ایک گلوکار بھی ہوتا ہے۔ شاعر ایک ادا کار بھی ہوتا ہے۔ میری لکھی ہوئی غزلوں کے دو آڈیو البم ریلیز ہو چکے ہیں جو ملک کے معروف گلوکاروں پلے بیک سنگر عارف پیزادہ اور استاد سجاد بری نے گائے ہیں۔ ڈرامہ سیریل دھوپ کی بارش پی۔ٹی۔ وی ہوم میں سینئر ڈاکٹر کا کردار ادا کیا اور دھوپ کی بارش کا ٹائٹل سانگ بھی لکھا۔ اصل میں اردو زبان پہلے ہی کافی زبانوں کا مکسچر ہے تو اس میں ہماری علاقائی زبانوں کے الفاظ اگر استعمال کیے جائیں تو اس سے ہماری علاقائی زبان مزید اجاگر ہو گی اور ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کے مزید مواقع فراہم کرے گی کیوں کہ ہمیں پاکستان کی ہر زبان سے پیار ہے

اورعلاقائی زبانوں کے الفاظ بولنے سے ہمار علاقائی تعصب ختم ہوگا اور بھائی چارہ بڑے گا۔ ڈھڈیاں گاؤں تحصیل و ضلع راولپنڈی کے رہنے والے لوگ پڑھے لکھے باشعور اور پر امن ہیں اور مجھے یہاں بہت ذہنی سکون میسر آیا میں یہاں بہت خوش ہوں اور میرے دونوں بچے سمیر احمد اور کبیر احمد یہاں بہت خوش ہیں اور یہ حقیقت ہے انہوں نے مجھے یہ گھر
فروخت کرنے سے روک دیا۔ مجھے جس مشاعرے کی دعوت ملتی ہے اس میں شرکت کرتا ہوں بلکہ کرونا کے دنوں میں ہم آن لائن مشاعرے پڑھتے رہے ہیں کیونکہ مشاعروں سے دور ہم لوگ نہیں رہ سکتے ہم جتنی بھی دوریوں پر ہوں ہمارے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ادبی محافل ہمارے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہیں۔ روات کی تاریخ کا پہلا مشاعرہ ہم نے عالمی ادب اکادمی کے پلیٹ فارم سے منعقد کروایا جو کہ ایک تاریخ ہے چک بیلی خان اور چونترا کی تاریخ کا پہلا دوسرا اور تیسرا مشاعرہ عالمی ادب اکادمی نے کروایا جو کہ ہمارے لیے ایک اعزاز ہے۔ شاعروں اورا دیبوں کا کام ہے کہ وہ معاشرے کو سدھار ہیں اگر ہم اپنا کلام چھپائیں گے

تو ادب کیسے پھیلے گا معاشرے کی برائیاں کیسے ختم ہوں گی کیونکہ ہمارا کام ہے اپنا پیغام معاشرے میں پھیلانا تاکہ معاشرے سے برائیاں ختم ہوں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے بعض شاعر و ادیب گرو بندیوں کا شکار ہیں ٹولہ بازی کا شکار ہیں وہ اپنے مشاعروں میں تعلق والے شعرا کو بلاتے ہیں جس کی عالمی ادب اکادمی مزاحمت کرتی ہے عالمی ادب اکادمی ہمیشہ سے گمنام نئے لکھنے والوں کو متعارف کرواتی ہے اور کرواتی رہے گی بعض بہت بڑے بڑے نام ادب کے لیے نقصان دہ ہیں کیونکہ وہ نئے لکھنے والوں کو پذیرائی نہیں دیتے
مقدر کب چمکتا ہے کسی کا گھر جلانے سے
ہمیشہ درد ملتا ہے محبت آزمانے سے
کسی کی آہ دنیا میں تمہیں جینے نہیں دے گی
کبھی راحت نہ پاؤ گے کسی کا دل دکھانے سے
مزاح لکھنا مشکل کام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مزاح لکھنے والا اندر سے واقعی بہت دکھی ہوتا ہے لیکن مزاح نگار کا وصف دیکھیے کہ وہ خود تو سنجیدہ رہتا ہے

اندر سے لیکن دنیا کو ہنساتا ہے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے کسی شاعر کا شعر ہے
جو سجائے رکھتے ہیں چہرے پہ ہنسی کی کرن
دل و روح میں نہ جانے کتنے شگاف رکھتے ہیں
شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے یہ لکھی نہیں جا سکتی اس میں کوئی کسی کا استاد نہیں ہوتا ہاں البتہ اساتذہ سے اصلاح ضرور لینی چاہیے میں خود بھی اصلاح لیتا ہوں جن میں سر فہرست نسیم شیخ کراچی سے ہیں جنہوں نے چشم حیرت کی اشاعت کے سلسلے میں بھی میری رہنمائی فرمائی شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال بھی حضرت داغ دہلوی سے اصلاح لیا کرتے تھے اس لیے اصلاح لینے میں کوئی قباحت نہیں اور اصلاح لینی چاہیے۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد پڑھنے کے لیے ملتان چلا گیا اور 1992ء میں واپس ساہیوال آیا 1993ء میں ساہیوال کو مکمل خیرباد کہہ دیا اور لاہور چلا آیا پنجاب کی معروفت ادبی شخصیت جناب یسین قدرت سے ملاقاتیں رہیں جب لاہور کے لیے رخت سفر باندھا تو یہ ملاقاتیں بھی ختم ہو گئیں لاہور میں چند سال گزارنے کے بعد راولپنڈی کو اپنا مسکن بنا لیا۔

راولپنڈی میں آنے کے بعد روات میں اپنا کلیننگ قائم کیا اور مریضوں کی خدمت شروع کی روات میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد چک بیلی خان میں اپنا ہسپتال قائم کیا جو کہ ابھی تک قائم و دائم ہے گو کہ راولپنڈی سے ایک فاصلہ ہونے کے باوجود ادبی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور مشاعروں میں شرکت کو بھی یقینی بنایا راولپنڈی اسلام آباد کی ادبی محافل نے میرے ذوق و شوق کو مزید روشن کیا۔ یہ تو میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہے کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور اپنا قیمتی وقت دیا اور ادبی نشست ہوئی ادبی باتیں ہوئیں آپ سے ملاقات کر کے میری روح سرشار ہو گئی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں