178

ڈاکٹر حسنین ساحر کی شاعری اُن کی شخصیت کا پرتو

اس زراندوز معاشرے میں حقیقی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والے انسان کہیں کھو سے گئے ہیں۔ ہمارے نوجوان سائنسی ترقی کے دور میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ہیں، کسی کو کسی کے احساسات کا خیال تک نہیں

۔ ایسے دور میں ڈاکٹر حسنین ساحر جیسے شاعر کا وجود نہ صرف ادب سے شغف رکھنے والوں بلکہ نوجوانوں کے احساسات و خیالات کا حقیقی ترجمان ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی شاعری چاہے نظم ہو یا غزل؛ اُن کی شخصیت کو عیاں کرتی ہے۔ چونکہ شاعری کسی بھی شاعر کے ظاہر و باطن کا پرتو ہوتی ہے، وہ جو محسوس کرتا ہے جو سوچ بچار رکھتا ہے

اُسے شاعری کی صورت بیان کر دیتا ہے۔ بقول ڈاکٹر حسنین ساحر:
کاش کوئی ساحر کا ہوتا
ساحر تو سب کا اپنا ہے
ساحر صاحب حقیقت میں ہر رشتے کے ساتھ انصاف کرنے والی شخصیت ہیں۔ انہیں غرور و تکبر چھو کر بھی نہیں گزرا۔ کسی کو ادنیٰ نہیں سمجھتے اور جب وقت بے وقت ان کو پکارا جائے

، کبھی ان سنی نہیں کرتے۔ ایسے میں وہ شکوہ بھی رکھتے ہیں کہ وہ سب کے ہیں مگر ان کا کوئی نہیں ہے۔ ان کی شخصیت کیخوبی ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہیں

اور اپنی شاعری میں بھی اپنے مخاطب کے لیے خوش گمانی سے ہی کام لیتے ہیں۔ شعر ملاحظہ ہو:
اُس کی مجبوری رہی ہوگی، وہ ایسا تو نہ تھا
مدتوں یہ سوچ کر میں دل کو بہلاتا رہا
ڈاکٹر حسنین ساحر کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے

کہ وہ آج کے انسان سے بہت مختلف ہیں۔ سادگی سے بھر پور زندہ دل تو ہیں مگر مکر و فریب سے کوسوں دُور ہیں۔ نہ شہرت کے متمنی نہ تعریف کی خواہاں:
لاکھ چاہا میں بھی دنیا کی طرح سوچوں مگر
دل مرا مجھ کو وفاؤں پر ہی اُکساتا رہا
لوگ مجھ سے فائدوں پر فائدے لیتے رہے
سادگی میں سادگی کی میں سزا پاتا رہا
وہ انسانیت کے لیے احترام و ہمدردی رکھنے والے انسان ہیں اور عشق
و محبت کو انسان کے لیے ضروری گردانتے ہیں۔ ان کے بقول:
پیار اک حقیقت ہے، پیار اک طریقت ہے
اور اس طریقت کی آرزو ضروری ہے
اُن کی شخصیت میں اپنا خاندانی جلال، رُعب و دبدبہ موجود ہے

۔ ان کی شاعری میں حقیقت پسندی کاعنصر نمایاں ہے اور مبالغہ دور تک نہیں وہ عام شاعروں کی طرح اپنے محبوب کے لیے خود کو گراتے نہیں

بلکہ صاف الفاظ میں اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں:
آمریت کا جنوں ہے میرے پرکھوں کی عطا
ہمسفر کیسے چلوں میں تیری تائید کے ساتھ
وہ شاعری میں بھی جھوٹ و مبالغہ کاسہارا نہیں لیتے۔ اُن کی نظموں اور غزلوں کو پڑھنے سے ان کی شخصیت کے اوصافِ حمیدہ صاف طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُن کی شاعری کا بہترین وصف حقیقت پسندی ہے

۔عام طور پر شعرا اپنی بات کو پرتاثیر بنانے کے لیے مبالغہ سے کام لیتے ہیں مگر ساحر صاحب کی شخصیت میں صداقت اس قدر اہم ہے کہ وہ اپنی شاعری میں بھی اس کا خاص خیال رکھتے ہیں

اور بے جا مبالغہ آرائی سے اجتناب برتتے ہیں:
نیند جاتی رہی، اب اُن کے سرہانے کے تلے
پیر وارث کی لکھی ہیر پڑی رہتی ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں