153

پنڈی پوسٹ میری پہنچان بنا

آصف شاہ
میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں نے جب شعبہ صحافت میں قدم رکھا تو انتہائی کامیاب اور مخلص دوستوں کی رہنمائی میرے ساتھ تھی ا محترم طارق بٹ جو کہ خطہ پوٹھوار کا ایک نام ہے انہوں نے ریڈیو ٹی وی پر اس وقت کام شروع کیا تھا کہ جس وقت مابدولت نے دنیاءمیں قدم بھی نہیں رکھا تھا میں نے باقاعدہ صحافت کے لیے ان سے رہنمائی لی تو وہ ہنس کربولے اس فیلڈ میں پکھ بھانگڑے تے عشق پر ہی ہوتا ہے میرا مشورہ ہے کہ اس لیے کوئی اور کام کرو لیکن میرے اصرار پر انہوں نے میری رہنمائی کی اور میں نے پنڈی پوسٹ کی جانب قدم رکھا، پنڈی پوسٹ مجھ سے ایک آدھ سال ہی بڑا ہے مارچ کی 11 تاریخ کو دن قدرے گرم تھا جب میں نے ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ دفتر کا دروازہ کھٹکٹایا گوکہ کہ میرا تعلق شعبہ صحافت سے بہت پہلے تھا لیکن فیلڈ رپورٹر کے حوالہ سے میرا کام صفر تھا اور اس صفر کو دس اور سو بنانے کی خواہش مجھے پنڈی پوسٹ لیکر آئی تھی دفتر میں داخلے کے بعد ایک ہستی پر نظر پڑی جنہوں نے اپنے دونوں پاوں ٹیبل پر رکھے ہوئے تھے اور کچھ لکھنے میں مصروف تھے انہوں نے لیب ٹائپ کی ایک سائیڈ سے جھانکا اور ہلکی سی آواز جی کہا میں نے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا کہیں کام کیا ہے میں نے اثبات سے سرہلایا اور بغیر رکے پوری رودار سنا دی ایک بار پھر ہوں کی آواز آئی کاغد اور پنسل میری طر ف کر کے کہا کہ روات بازار کی نیوز لکھو ڈیڈھ لائن کے بعد ہی زبردستی کاغذ اپنی طرف کھینچ کر لکھی ہوئی خبر پر نظر ڈالی اور اوکے کی نوید سنا دی الیکشن سرپر تھے اور پھر دن رات ایک کر کے کام کیا اسی بھاگ دوڑ میں مختلف سیاسی عمائدین سے بھی شرف ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی اس شعبے میں آنے سے بہت سی شخصیات جن کو ٹی وی پر دیکھ رکھا تھا سے ملاقات کا بے حد شوق تھا اسی دوران سید آل عمران کے ٹو ٹی وی پر ایک پروگرام کر رہے تھے جس میں استاد محترم مہمان تھے سید آل عمران سے پہلی ملاقات کے بعد اس شعبے میں کام کرنے کا جذبہ جنون میں بدلا ،کچھ ماہ سے مسلسل کام کے باوجود پنڈی پوسٹ کی پوری ٹیم سے ملاقات کا موقع نہ ہوسسکی تھی وہ لوگ جو باقاعدہ لکھتے تھے لیکن ان سے ملاقات نہ تھی ان میں ملک ظفر مرحوم جاوید اقبال بٹ مرحوم شامل تھے ملک ظفر کی قلم کی لکھا ہوا کالم ڈائری کبھی ان کے چہرے سے مماثلت نہ رکھتا تھا،میں ارزاءمذاق کہتا تھا کہ یہ آپ لکھ ہی نہیں سکتے میرا ان سے ہمیشہ اسی بات پر اختلاف رہا اور ان سے اسی بات پرمحبت بھری جھپٹ ہمیشہ ہماری منتظر ہوتی تھی لیکن جانے سے پہلے وہ ہمیشہ میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر پیار سے کہتے پیرا کوئی گستاخی ہوئی تے معاف کریاءمینوں تو ں چنگا لگنا واں۔اس واسطے مذاق کرناواں،، جاوید بٹ میری طرح مزاح کے دلداہ تھے اور انہیں پوٹھواری ڈراموں کا بھی تجربہ تھا،اور انکے ساتھ بھی لفظوں کی مارا ماری بھی چلتی رہی جب تک یہ دونوں شخصیات زندہ رہی،یقینا ان کا بچھڑنا ابھی تک ہم بھول نہیں سکے ہیں اسی چھوٹے سے سفر میں مجھے میڈم شکیلہ جلیل کے ساتھ تھوڑا عرصہ کام کرنے کا اتفاق ہوا انہوں نے بھی قدم قدم پر رہنمائی کی اس وقت پنڈی پوسٹ کی پوری ٹیم جبار چوہدری ،چوہدری اشفاق،سردار بشارت،عدیل ملک،شہزاد رضا،شیراز اختر حافظ یاسر ندیم اور خود احسان الحق کا بھی ساتھ شامل ہے جن کے ساتھ محبت بھری لڑائی جھگڑا جاری رہتا ہے ،اور جب تک زندگی نے وفا کی یہ سلسلہ جاری رہے گا ،صحافتی معاملات میں اونچ نیچ ایک معمول کی بات ہے ہمیںمجھے ذاتی طور پر کام کرتے ہوئے متعدد بار نوٹسز اور میں میں تو تو اور دیکھ لونگا کی باتیں سننے کو ملی لیکن جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہوا پوری ٹیم ایک مٹھی کی مانند میرے ساتھ کھڑی نظر آئی میں شائید میں اب میچور ہوگیا ہوں اور میری اس میچورٹی میں بڑا ہاتھ پنڈی پوسٹ میرے استاد محترم کے ساتھ ان سب دوستوں کا بھی ہے جو اب بھی میری کسی غلطی پر اسی
طرح سناتے ہیں جیسے کوئی کسی بچے کو لیکن میں نے کبھی اس بات کو محسوس نہیں کیا اور شائید یہی مجھے اس فیلڈ میں زندہ رکھے ہوئے ہے ،میری دعا ہے کی ٹیم پنڈی پوسٹ اسی طرح اکھٹی رہے کیونکہ اتفاق میں برکت ہے ،
{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں