columns 74

پاکستان کی قومی سیاست

ریاست اور سیاست دونوں ہی سنگین نوعیت کے بحران سے جڑے ہوئے ہیں قومی سیاست درست سمت کی طرف پیش قدمی کرنے کے بجائے مسائل درمسائل کا شکار ہوتی جارہی ہے سیاست کو بند گلی میں دھکیلنے کی بھر پورکوشش ہو رہی ہے محض سیاسی فر یقین ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی اور میڈیا ئی دانشور یعنی اپنی اپنی دکان سجا کر بیٹھے ہیں اس سارے منظر نامہ میں جمہوری اقدار پیچھے رہ گئی ہیں سیاست سے جڑے فریقین اقتدار کے حصول کے جوڑتو ڑ میں مصروف ہیں اقتدار کے اس کھیل کا کوئی اصول نہیں ہے اس کا واحد اصول خود کو ایک بڑے حصہ دار کے طور پر پیش کرنا ہے اقتدار کی اس جنگ میں ہر کوئی ہر حد تک جانے کے لئے تیار ہے

سیاسی پنڈتوں کے بقول انتخابات کے بعد بھی جو نئی حکومت آئے گی اسے سیاسی معاشی اور سیکورٹی سطح کے سنگین مسائل سے نمٹنے میں کئی مشکلات اور دشو اریوں کا سامنا کرنا پڑے گا انتخابات کا مجموعی کھیل روزانہ کی بنیادوں پر نئے نئے تضادات کو جنم دے رہاہے اور ایسے لگتا ہے کہ سیاسی فریق تنہا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اس بات سے کسی کو بھی کوئی ڈر یا خوف نہیں یا ان کو حالات کی سنیگنی کا احساس نہیں کہ ہماری ترقی کا عمل آگے کیسے بڑھے گا سیاست میں ڈائیلاگ کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے اور یہ سیاسی بحران کی نشاند ہی کرتا ہے اس لئے ملک کو درپیش مسائل کا حل اجتماعی دانش اور کوششوں سے نکالنا ہو گا ان مسائل کا حل ٹکر کے سیاسی دشمنی سے ممکن نہیں سیاسی محاذ پر سیاسی پنڈتوں اور تخریہ نگاروں کو دیکھیں تو اُن کی طرف سے بھی ان حالات میں درستگی کا ماحول پیدا کر نے کے بجائے تقسیم کواور زیادہ گہرا کیا جارہا ہے

مجموعی طور پر کوئی اس بیانیہ پر آنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی اپنی گفتگو یا تحریروں سے دباؤ ڈالنے کی کوئی سنجید ہ کوشش ہو رہی ہے کہ سیاست میں دشمنی کے کھیل کوبند کیا جائے اور ریاست کو سیاست کے ساتھ یا سیاسی حکمت عملیوں کو ہی بنیاد بنا کر مسائل کا حل تلاش کر نا ہی دانش مندی ہو گی بعض تجزیہ کار تو حالات کی درستگی کے بجائے اس میں مزید بگاڑ پیدا کر نے کی کوشش کر رہے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ انتخابات کے نتائج کیا ہو نگے اور کون مقبولیت رکھتا ہے یا ووٹر ز میں کون مقبول ہے ہم سب کو یہ مشورہ دے رہے ہیں اور ان کو پیغام پہنچار ہے ہیں کہ سیاست کو سیاسی اصولوں سے ہی چلایا جائے قومی سیاست جوڑ توڑ اور سازش کے کھیلوں کا وسیع تجربہ رکھتی ہے اسی کھیل کو بنیاد بنا کر اس میں نئے سیاسی جنگ اور نئے سیاسی کردارتشکیل دئیے جاتے رہے ہیں اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم نظام میں موجود خر ابیوں کی اصلاح کے لئے تیار نہیں

اورہم چاہتے ہیں کہ اسی طرز کی بنیاد پر جا ری روایتی بنیاد پر چلنے والے نظام کو ایسے ہی چلاتے رہیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ یہ کھیل جو کئی دہا ئیوں سے قومی سیاست میں چلایا جارہا ہے اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکا ہے اور مسلسل اس کھیل کی ساتھ منفی بنیادوں پر آگے بڑھ رہی ہے ہمارا یہ نظام برے طریقے سے بے نقاب ہو چکا ہے اور لوگوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ ہم کہاں تک نیچے چلے گئے ہیں اس لئے اس بیمار اور فرسودہ نظام کو جتنی جلدی ہم سمجھ سکیں اور اس میں جو اصلاحات ہمارے لئے نا گز یر ہو گئی ہیں اس کو روکنے کے لئے یا اس نظام پر لوگوں کی ملکیت کے تصور کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیں واقعی بے روز گاری غربت بنیادی حقوق سے جڑے معاملات پر رسائی بجلی گیس پیٹرول ڈیزل سمیت ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء میں بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے امور شامل ہیں گورننس یااچھی حکمرانی کا یہ بحران لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں کم اور مشکلات کو
زیادہ پیدا کر رہا ہے

لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ سیاست جمہوریت اور انتخابات کا عمل ہماری مشکلات کو کم نہیں بلکہ زیادہ کر رہا ہے اور یہ زیادہ تشویش اور پر یشانی کا پہلو ہے یہ عمل سیاست اور جمہو ریت کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی اس سے ہمارا معاشی بحران حل ہو سکے گا کیو نکہ عالمی اور قومی سطح پر جو بھی مالیاتی ادارے ہیں جو معاشی حالات کا جائزہ لے کر مستقبل کی تصویرکشی کر تے ہیں ان کے بقول ہمارے حالات آئندہ بھی بہت زیادہ تبدیلی کے ساتھ سامنے نہیں آسکیں گے اس لئے ہمارے چیلنجز بڑھ رہے ہیں اور ہمیں لوگوں میں یہ اعتماد پیدا کر نا ہو گا کہ ہم بہترین کی طرف جائیں گے کیو نکہ ہماری نوجوان نسل میں جو مایوسی بڑھ رہی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ سب نوجوانوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ انہوں نے ملک کو چھوڑنا ہے ہمارے مسائل کا حل نئی نسل سمیت مختلف فریقوں کو گالی دینے ان کو برا بھلا کہنے یا کسی کی حب الوطنی کو چیلنچ کر نے یا ان میں ہر سطح پر غداری کے الفاظ سے ممکن نہیں ہمیں لوگوں کو چھوڑنا ہے اور ان کے ساتھ سیاسی حل تلاش تھی تلاش کر نا ہے

ہمیں جو حکمت عملی سنجیدگی یا سخت گیر فیصلے کر نے ہیں یا جو صبرکی گولیاں کھانی ہیں اس کے لئے ہم تیار نہیں ہیں ٹھوس منصوبہ بندی کے بجائے وقتی بنیادوں پر فیصلے کر کے حالات سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے ایسے لگتا ہے کہ حالات سے نمٹنے کے لئے ہمارے فیصلوں میں یا اقدامات میں جو گہرائی اور سنجیدگی نظر آنی چاہیے اس کا ہمیں ہر سطح پر فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے تعمیر وترقی کا کام پیچھے رہ گیا ہے اس لئے حکو متی ادارے کا پالیسی ساز سمیت اہل سیاست خود کا بھی محاسبہ کریں اورقوم کا بھی یہ پیغام پہنچا دیں کہ ریاست ان کے بنیادی حقوق کے ساتھ کھڑی ہے عام آدمی کی ترقی کو بنیاد بنا کر ہی ہم مستحکم پاکستان کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں اگر ہر فریق اپنے اپنے آئینی اور قانونی یا سیاسی دائرہ کا ر میں رہ کر کام کر ے اور کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کی جائے تو مسائل حل ہو سکتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں